قرآن مجيد

سورة طه
نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَقُولُونَ إِذْ يَقُولُ أَمْثَلُهُمْ طَرِيقَةً إِنْ لَبِثْتُمْ إِلَّا يَوْمًا[104]
ہم زیادہ جاننے والے ہیں جو کچھ وہ کہہ رہے ہوں گے، جب ان کا سب سے اچھے طریقے والا کہہ رہا ہوگا کہ تم ایک دن کے سوا نہیں ٹھہرے۔[104]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 102، 103، 104،

صور کیا ہے ؟ ٭٭

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوتا ہے کہ صور کیا چیز ہے؟ آپ نے فرمایا وہ ایک قرن ہے جو پھونکا جائے گا۔ [سنن ترمذي:3244،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏

اور حدیث میں ہے کہ اس کا دائرہ بقدر آسمانوں اور زمینوں کے ہے۔ اسرافیل علیہ السلام اسے پھونکیں گے۔ اور روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا، میں کیسے آرام حاصل کروں حالانکہ صور پھونکنے والے فرشتے نے صور کا لقمہ بنا لیا ہے، پیشانی جھکا دی ہے اور انتظار میں ہے کہ کب حکم دیا جائے۔ لوگوں نے کہا، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم کیا پڑھیں؟ فرمایا کہو «‏‏‏‏حَسبُنَا اللہُ وَنِعمَ الوَکِیلُ عَلَی اللہِ تَوَکَّلنَا» ‏‏‏‏۔ [سنن ترمذي:3243،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏

اس وقت تمام لوگوں کا حشر ہو گا کہ مارے ڈر اور گھبراہٹ کے گنہگاروں کی آنکھیں ٹیڑھی ہو رہی ہوں گی۔ ایک دوسرے سے پوشیدہ پوشیدہ کہہ رہے ہوں گے کہ دنیا میں تو ہم بہت ہی کم رہے، زیادہ سے زیادہ شاید دس دن وہاں گزرے ہونگے۔ ہم ان کی اس رازداری کی گفتگو کو بھی بخوبی جانتے ہیں جب کہ ان میں سے بڑا عاقل اور کامل انسان کہے گا کہ میاں دس دن بھی کہاں رکے؟ ہم تو صرف ایک دن ہی دنیا میں رہے۔

غرض کفار کو دنیا کی زندگی ایک سپنے کی طرح معلوم ہو گی۔ اس وقت وہ قسمیں کھا کھا کر کہیں گے کہ صرف ایک ساعت ہی دنیا میں ہم تو ٹھہرے ہوں گے۔ چنانچہ اور آیت میں ہے «‏‏‏‏اَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ مَّا يَتَذَكَّرُ فِيْهِ» ‏‏‏‏ [35-فاطر:37] ‏‏‏‏ الخ۔

ہم نے تمہیں عبرت حاصل کرنے کے قابل عمر بھی دی تھی۔ پھر ہوشیار کرنے والے بھی تمہارے پاس آچکے تھے۔ اور آیتوں میں ہے کہ «قَالَ كَمْ لَبِثْتُمْ فِي الْأَرْضِ عَدَدَ سِنِينَ قَالُوا لَبِثْنَا يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ فَاسْأَلِ الْعَادِّينَ قَالَ إِن لَّبِثْتُمْ إِلَّا قَلِيلًا ۖ لَّوْ أَنَّكُمْ كُنتُمْ تَعْلَمُونَ» [23-المؤمنون:112] ‏‏‏‏

اس سوال پر کہ تم کتنا عرصہ زمین پر گزار آئے؟ ان کا جواب ہے ایک دن بلکہ اس سے بھی کم۔ فی الواقع دنیا ہے بھی آخرت کے مقابلے میں ایسی ہی۔ لیکن اگر اس بات کو پہلے سے باور کر لیتے تو اس فانی کو اس باقی پر، اس تھوڑی کو اس بہت پر پسند نہ کرتے بلکہ آخرت کا سامان اس دنیا میں کرتے۔