اس نے کہا میں نے وہ چیز دیکھی جو ان لوگوں نے نہیں دیکھی، سو میں نے رسول کے پائوں کے نشان سے ایک مٹھی اٹھالی، پھر میں نے وہ ڈال دی اور میرے دل نے اسی طرح کرنا میرے لیے خوش نما بنادیا۔[96]
موسیٰ علیہ السلام نے سامری سے پوچھا کہ تو نے یہ فتنہ کیوں اٹھایا؟ یہ شخص باجرو کا رہنے والا تھا، اس کی قوم گائے پرست تھی۔ اس کے دل میں گائے کی محبت گھر کئے ہوئے تھی۔ اس نے بنی اسرائیل کے ساتھ اپنے ایمان کا اظہار کیا تھا۔ اس کا نام موسیٰ بن ظفر تھا۔ ایک روایت میں ہے، یہ کرمانی تھا۔ ایک روایت میں ہے، اس کی بستی کا نام سامرا تھا۔ اس نے جواب دیا کہ جب فرعون کی ہلاکت کے لیے جبرائیل علیہ السلام آئے تو میں نے ان کے گھوڑے کے ٹاپ تلے کی تھوڑی سی مٹی اٹھا لی۔ اکثر مفسرین کے نزدیک مشہور بات یہی ہے۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب جبرائیل علیہ السلام آئے اور موسیٰ علیہ السلام کو لے کر چڑھنے لگے تو سامری نے دیکھ لیا۔ اس نے جلدی سے ان کے گھوڑے کے سم تلے کی مٹی اٹھا لی۔ موسیٰ علیہ السلام کو جبرائیل علیہ السلام آسمان تک لے گئے، اللہ تعالیٰ نے تورات لکھی، موسیٰ علیہ السلام قلم کی تحریر کی آواز سن رہے تھے لیکن جب آپ کو اپنی قوم کی مصیبت معلوم ہوئی تو نیچے اتر آئے اور اس بچھڑے کو جلا دیا۔ لیکن اس اثر کی سند غریب ہے۔
اسی خاک کی چٹکی یا مٹھی کو اس نے بنی اسرائیل کے جمع کردہ زیوروں کے جلنے کے وقت ان میں ڈال دی۔ جو بصورت بچھڑا بن گئے اور چونکہ بیچ میں خلا تھا، وہاں سے ہوا گھستی تھی اور اس سے آواز نکلتی تھی۔ جبرائیل علیہ السلام کو دیکھتے ہی اس کے دل میں خیال گزرا تھا کہ میں ان کے گھوڑے کے ٹاپوں تلے کی مٹی اٹھا لوں، میں جو چاہوں گا، وہ اس مٹی کے ڈالنے سے بن جائے گا۔ اس کی انگلیاں اسی وقت سوکھ گئی تھیں۔
جب بنی اسرائیل نے دیکھا کہ ان کے پاس فرعونیوں کے زیورات رہ گئے اور فرعونی ہلاک ہو گئے اور یہ اب ان کو واپس نہیں ہو سکتے تو غمزدہ ہونے لگے۔ سامری نے کہا، دیکھو اس کی وجہ سے تم پر مصیبت نازل ہوئی ہے، اسے جمع کر کے آگ لگا دو۔ جب وہ جمع ہو گئے اور آگ سے پگھل گئے تو اس کے جی میں آئی کہ وہ خاک اس پر ڈال دے اور اسے بچھڑے کی شکل میں بنا لے چنانچہ یہی ہوا۔ اور اس نے کہہ دیا کہ تمہارا اور موسیٰ علیہ السلام کا رب یہی ہے۔ یہی وہ جواب دے رہا ہے کہ میں نے اسے ڈال دیا اور میرے دل نے یہی ترکیب مجھے اچھی طرح سمجھا دی۔
کلیم اللہ علیہ السلام نے فرمایا، تو نے نہ لینے کی چیز کو ہاتھ لگایا، تیری سزا دنیا میں یہی ہے کہ اب نہ تو تو کسی کو ہاتھ لگا سکے نہ کوئی اور تجھے ہاتھ لگا سکے۔ باقی سزا تیری قیامت کو ہو گی جس سے چھٹکارا محال ہے۔ ان کے بقایا اب تک یہی کہتے ہیں کہ نہ چھونا۔ اب تو اپنے معبود کا حشر بھی دیکھ لے جس کی عبادت پر اوندھا پڑا ہوا تھا کہ ہم اسے جلا کر راکھ کر دیتے ہیں
چنانچہ وہ سونے کا بچھڑا اس طرح جل گیا جیسے خون اور گوشت والا بچھڑا جلے۔ پھر اس کی راکھ کو تیز ہوا میں دریا میں ذرہ ذرہ کر کے اڑا دیا۔ مروی ہے کہ اس نے بنی اسرائیل کی عورتوں کے زیور جہاں تک اس کے بس میں تھے لیے ان کا بچھڑا بنایا جسے موسیٰ علیہ السلام نے جلا دیا اور دریا میں اس کی خاک بہا دی۔ جس نے بھی اس کا پانی پیا، اس کا چہرہ زرد پڑ گیا، اس سے سارے گئوسالہ پرست معلوم ہو گئے۔
اب انہوں نے توبہ کی اور موسیٰ علیہ السلام سے دریافت کیا کہ ہماری توبہ کیسے قبول ہو گی؟ حکم ہوا کہ ایک دوسرے کو قتل کرو۔ اس کا پورا بیان پہلے گزر چکا ہے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ تمہارا معبود یہ نہیں۔ مستحق عبادت تو صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ باقی تمام جہان اس کا محتاج ہے اور اس کے ماتحت ہے۔ وہ ہرچیز کا عالم ہے، اس کے علم نے تمام مخلوق کا احاطہٰ کر رکھا ہے، ہرچیز کی گنتی اسے معلوم ہے۔
ایک ذرہ بھی اس کے علم سے باہر نہیں، ہر پتے کا اور ہر دانے کا اسے علم ہے بلکہ اس کے پاس کی کتاب میں وہ لکھا ہوا موجود ہے۔ زمین کے تمام جانداروں کو روزیاں وہی پہنچاتا ہے، سب کی جگہ اسے معلوم ہے، سب کچھ کھلی اور واضح کتاب میں لکھا ہوا ہے۔ علم الٰہی محیط کل اور سب کو حاوی ہے۔ اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں۔