انھوں نے کہا ہم تجھے ہرگز ترجیح نہ دیں گے ان واضح دلائل پر جو ہمارے پاس آئے ہیں اور اس پر جس نے ہمیں پیداکیا ہے، سو فیصلہ کر جو تو فیصلہ کرنے والا ہے، اس کے سوا کچھ نہیں کہ تو اس دنیا کی زندگی کا فیصلہ کرے گا۔[72]
اللہ کی شان دیکھئے! چاہیئے تو یہ تھا کہ فرعون اب راہ راست پر آ جاتا۔ جن کو اس نے مقابلے کیلئے بلوایا تھا وہ عام مجمع میں ہارے۔ انہوں نے اپنی ہار مان لی، اپنے کرتوت کو جادو اور موسیٰ علیہ السلام کے معجزے کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطاء کردہ معجزہ تسلیم کر لیا۔ خود وہ ایمان لے آئے جو مقابلے کے لیے بلوائے گئے تھے۔ مجمع عام میں سب کے سامنے بے جھجک انہوں نے دین حق کو قبول کر لیا۔ لیکن یہ اپنی شیطنیت میں اور بڑھ گیا اور اپنی قوت وطاقت دکھانے لگا لیکن بھلا حق والے مادی طاقتوں کو سمجھتے ہی کیا ہیں؟ «قَالَ فِرْعَوْنُ آمَنتُم بِهِ قَبْلَ أَنْ آذَنَ لَكُمْ ۖ إِنَّ هَـٰذَا لَمَكْرٌ مَّكَرْتُمُوهُ فِي الْمَدِينَةِ لِتُخْرِجُوا مِنْهَا أَهْلَهَا ۖ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ» [7-الأعراف:123]
پہلے تو جادوگروں کے اس مسلم گروہ سے کہنے لگا کہ میری اجازت کے بغیر تم اس پر ایمان کیوں لائے؟ پھر ایسا بہتان باندھا جس کا جھوٹ ہونا بالکل واضح ہے کہ موسیٰ علیہ السلام تو تمہارے استاد ہیں انہی سے تم نے جادو سیکھا ہے۔ تم سب آپس میں ایک ہی ہو، مشورہ کر کے ہمیں تاراج کرنے کے لیے تم نے پہلے انہیں بھیجا پھر اس کے مقابلے میں خود آئے اور اپنے اندرونی سمجھوتے کے مطابق سامنے ہار گئے۔ اور اسے جتا دیا اور پھر اس کا دین قبول کر لیا تاکہ تمہاری دیکھا دیکھی میری رعایا بھی اس چکر میں پھنس جائے مگر تمہیں اپنی اس ساز باز کا انجام بھی معلوم ہو جائے گا۔ میں الٹی سیدھی طرف سے تمہارے ہاتھ پاؤں کاٹ کر تم کو کھجور کے تنوں پر سولی دوں گا اور اس بری طرح تمہاری جان لوں گا کہ دوسروں کے لیے عبرت ہو۔
اسی بادشاہ نے سب سے پہلے یہ سزا دی ہے۔ تم جو اپنے آپکو ہدایت پر اور مجھے اور میری قوم کو گمراہی پرسمجھتے ہو، اس کا حال بھی تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ دائمی عذاب کس پر آتا ہے؟ اس دھمکی کا ان کے دلوں پر الٹا اثر ہوا۔ وہ اپنے ایمان میں کامل بن گئے اور نہایت بےپرواہی سے جواب دیا کہ اس ہدایت و یقین کے مقابلے میں جو ہمیں اب اللہ کی طرف سے حاصل ہوا ہے، ہم تیرا مذہب کسی طرح قبول کرنے کے نہیں۔ نہ تجھے ہم اپنے سچے خالق مالک کے سامنے کوئی چیزسمجھیں۔
اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ جملہ قسم ہو یعنی اس اللہ کی قسم جس نے ہمیں اولاً پیدا کیا ہے، ہم ان واضح دلیلوں پر تیری گمراہی کو ترجیح دے ہی نہیں سکتے خواہ تو ہمارے ساتھ کچھ ہی کر لے۔ مستحق عبادت وہ ہے جس نے ہمیں بنایا نہ کہ تو، جو خود اسی کا بنایا ہوا ہے۔ تجھے جو کرنا ہو اس میں کمی نہ کر، تو تو ہمیں اسی وقت تک سزا دے سکتا ہے جب تک ہم اس دنیا کی حیات کی قید میں ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ اس کے بعد ابدی راحت اور غیر فانی خوشی ومسرت نصیب ہو گی۔ ہم اپنے رب پر ایمان لائے ہیں ہمیں امید ہے کہ وہ ہمارے اگلے قصوروں سے درگزر فرمالے گا بالخصوص یہ قصور جو ہم سے اللہ کے سچے نبی کے مقابلے پر جادو بازی کرنے کا سرزد ہوا ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں، فرعون نے بنی اسرائیل کے چالیس بچے لے کر انہیں جادوگروں کے سپرد کیا تھا کہ انہیں جادو کی پوری تعلیم دو۔ اب یہ لڑکے یہ مقولہ کہہ رہے ہیں کہ تو نے ہم سے جبراً جادوگری کی خدمت لی۔ عبدالرحمٰن بن زید رحمہ اللہ کا قول بھی یہی ہے۔ پھر فرمایا ہمارے لیے بہ نسبت تیرے، اللہ بہت بہتر ہے اور دائمی ثواب دینے والا ہے۔ نہ ہمیں تیری سزاؤں سے ڈر نہ تیرے انعام کی لالچ۔ اللہ تعالیٰ کی ذات ہی اس لائق ہے کہ اس کی عبادت و اطاعت کی جائے۔
اسی کے عذاب دائمی ہیں اور سخت خطرناک ہیں، اگر اس کی نافرمانی کی جائے۔ پس فرعون نے بھی ان کے ساتھ یہ کیا۔ سب کے ہاتھ پاؤں الٹی سیدھی طرف سے کاٹ کرسولی پر چڑھا دیا۔ وہ جماعت جو سورج کے نکلنے کے وقت کافر تھی، وہی جماعت سورج ڈوبنے سے پہلے مومن اور شہید تھی رحمتہ اللہ علیہم اجمعین۔