قرآن مجيد

سورة طه
قَالَ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطَى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدَى[50]
کہا ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی شکل و صورت بخشی، پھر راستہ دکھایا۔[50]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 49، 50، 51، 52،

مکالمات موسیٰ علیہ السلام اور فرعون ٭٭

چونکہ یہ ناہنجار یعنی فرعون مصر وجود باری تعالیٰ کا منکر تھا، پیغام الٰہی کلیم اللہ علیہ السلام کی زبانی سن کر وجود خالق کے انکار کے طور پر سوال کرنے لگا کہ تمہارا بھیجنے والا اور تمہارا رب کون ہے؟ میں تو اسے نہیں جانتا نہ اسے مانتا ہوں۔ بلکہ میری دانست میں تو تم سب کا رب میرے سوا اور کوئی نہیں۔ اللہ کے سچے رسول علیہ السلام نے جواب دیا کہ ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر شخص کو اس کا جوڑا عطا فرمایا ہے۔ انسان کو بصورت انسان، گدھے کو اس کی صورت پر، بکری کو ایک علیحدہ صورت پر پیدا فرمایا ہے۔ ہر ایک کو اس کی مخصوص صورت میں بنایا ہے۔ ہر ایک کی پیدائش نرالی شان سے درست کر دی ہے۔

انسانی پیدائش کا طریقہ الگ ہے، چوپائے الگ صورت میں ہیں، درندے الگ وضع میں ہیں۔ ہر ایک کے جوڑے کی ہئیت ترکیبی علیحدہ ہے۔ کھانا پینا، کھانے پینے کی چیزیں، جوڑے سب الگ الگ اور ممتاز و مخصوص ہیں۔ ہر ایک کا انداز مقرر کر کے پھر اس کی ترکیب اسے بتلا دی ہے۔ عمل اجل، رزق مقدر اور مقرر کر کے اسی پر لگا دیا ہے۔ نظام کے ساتھ ساری مخلوق کا کارخانہ چل رہا ہے۔ کوئی اس سے ادھر ادھر نہیں ہو سکتا۔ خلق کا خالق، تقدیروں کا مقرر کرنے والا، اپنے ارادے پر مخلوق کی پیدائش کرنے والا ہی ہمارا رب ہے۔ یہ سب سن کر اس بےسمجھ نے پوچھا کہ اچھا تو پھر ان کا کیا حال ہے جو ہم سے پہلے تھے اور اللہ کی عبادت کے منکر تھے؟ اس سوال کو اس نے اہمیت کے ساتھ کیا۔

لیکن اللہ کے پیغمبر علیہ السلام نے ایسا جواب دیا کہ عاجز ہو گیا۔ فرمایا ان سب کا علم میرے رب کو ہے۔ لوح محفوظ میں ان کے اعمال لکھے ہوئے ہیں، جزا سزا کا دن مقرر ہے۔ نہ وہ غلط کرے کہ کوئی چھوٹا بڑا اس کی پکڑ سے چھوٹ جائے، نہ وہ بھولے کہ مجرم اس کی گرفت سے رہ جائیں۔ اس کا علم تمام چیزوں کو اپنے میں گھیرے ہوئے ہے۔ اس کی ذات بھول چوک سے پاک ہے۔ نہ اس کے علم سے کوئی چیز باہر، نہ علم کے بعد بھول جانے کا اس کا وصف، وہ کمی علم کے نقصان سے، وہ بھول کے نقصان سے پاک ہے۔