قرآن مجيد

سورة البقرة
وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَنْ يَنْكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ ذَلِكَ يُوعَظُ بِهِ مَنْ كَانَ مِنْكُمْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكُمْ أَزْكَى لَكُمْ وَأَطْهَرُ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ[232]
اور جب تم عورتوں کو طلاق دو، پس وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں تو انھیں اس سے نہ روکو کہ وہ اپنے خاوندوں سے نکاح کرلیں، جب وہ آ پس میں اچھے طریقے سے راضی ہو جائیں۔ یہ بات ہے جس کی نصیحت تم میں سے اس کو کی جاتی ہے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو۔ یہ تمھارے لیے زیادہ ستھرا اور زیادہ پاکیزہ ہے اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔[232]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 232،

ورثاء کے لئے طلاق کی مزید آئینی وضاحت ٭٭

اس آیت میں عورتوں کے ولی وارثوں کو ممانعت ہو رہی ہے کہ جب کسی عورت کو طلاق ہو جائے اور عدت بھی گزر جائے پھر میاں بیوی اپنی رضا مندی سے نکاح کرنا چاہیں تو وہ انہیں نہ روکیں۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:22/5] ‏‏‏‏ اس آیت میں اس امر کی بھی دلیل ہے کہ عورت خود اپنا نکاح نہیں کر سکتی اور نکاح بغیر ولی کے نہیں ہو سکتا چنانچہ ترمذی اور ابن جریر نے اس آیت کی تفسیر میں یہ حدیث وارد کی ہے کہ عورت عورت کا نکاح نہیں کر سکتی نہ عورت اپنا نکاح آپ کر سکتی ہے۔ وہ عورتیں زنا کار ہیں جو اپنا نکاح آپ کر لیں۔ [سنن ابن ماجه:1882، قال الشيخ الألباني:صحیح بدون الجملة] ‏‏‏‏ دوسری حدیث میں ہے نکاح بغیر راہ یافتہ کے اور دو عادل گواہوں کے نہیں، [دار قطنی:225/3] ‏‏‏‏ گو اس مسئلہ میں بھی اختلاف ہے لیکن اس کے بیان کی جگہ تفسیر نہیں۔ ہم اس کا بیان کتاب الاحکام میں کر چکے ہیں «فالْحَمْدُ لِلَّـه» ۔ یہ آیت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ اور ان کی ہمشیرہ صاحبہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ صحیح بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر کے بیان میں ہے کہ سیدنا معقل بن یسار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میری بہن کا منگیتر میرے پاس آتا تھا۔ میں نے نکاح کر دیا۔ اس نے کچھ دِنوں بعد طلاق دے دی۔ پھر عدت گزر جانے کے بعد نکاح کی درخواست کی، میں نے انکار کر دیا۔ اس پر یہ آیت اتری۔ [صحیح بخاری:4529] ‏‏‏‏ جسے سن کر سیدنا معقل رضی اللہ عنہ نے باوجود یہ کہ قسم کھا رکھی تھی کہ میں تیرے نکاح میں نہ دوں گا، نکاح پر آمادہ ہو گئے اور کہنے لگے میں نے اللہ کا فرمان سنا اور میں نے مان لیا اور اپنے بہنوئی کو بلا کر دوبارہ نکاح کر دیا۔ [سنن ابوداود:2087، قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏ اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کیا۔ ان کا نام جمیل بنت یسار رضی اللہ عنہا تھا۔ ان کے خاوند کا نام ابوالبداح رضی اللہ عنہ تھا۔ بعض نے ان کا نام فاطمہ بن یسار رضی اللہ عنہا بتایا ہے۔ سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ اور ان کے چچا کی بیٹی کے بارے میں نازل ہوئی ہے لیکن پہلی بات ہی زیادہ صحیح ہے۔

پھر یہ فرمایا یہ نصیحت و وعظ کیلئے ہے جنہیں شریعت پر ایمان ہو، اللہ کا ڈر ہو، قیامت کا خوف ہو، انہیں چاہیئے کہ اپنی ولایت میں جو عورتیں ہوں انہیں ایسی حالت میں نکاح سے نہ روکیں، شریعت کی اتباع کر کے ایسی عورتوں کو ان کے خاوندوں کے نکاح میں دے دینا اور اپنی حمیت و غیرت کو جو خلاف شرع ہو، شریعت کے ماتحت کر دینا ہی تمہارے لیے بہتری اور پاکیزگی کا باعث ہے۔ ان مصلحتوں کا علم جناب باری تعالیٰ کو ہی ہے، تمہیں معلوم نہیں کہ کس کام کے کرنے میں بھلائی ہے اور کس کے چھوڑنے میں۔ یہ علم حقیقت میں اللہ رب العزت ہی کو ہے۔