قرآن مجيد

سورة طه
وَلَقَدْ مَنَنَّا عَلَيْكَ مَرَّةً أُخْرَى[37]
اور بلاشبہ یقینا ہم نے تجھ پر ایک اور بار بھی احسان کیا۔[37]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 36، 37، 38، 39، 40،

موسیٰ علیہ السلام کا بچپن ٭٭

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تمام دعائیں قبول ہوئیں اور فرما دیا گیا کہ تمہاری درخواست منظور ہے۔ اس احسان کے ساتھ ہی اور احسان کا بھی ذکر کر دیا گیا کہ ہم نے تجھ پر ایک مرتبہ اور بھی بڑا احسان کیا ہے۔ پھر اس واقعہ کو مختصر طور پر یاد دلایا کہ ہم نے تیرے بچپن کے وقت تیری ماں کی طرف وحی بھیجی جس کا ذکر اب تم سے ہو رہا ہے۔ تم اس وقت دودھ پیتے بچے تھے، تمہاری والدہ کو فرعون اور فرعونیوں کا کھٹکا تھا کیونکہ اس سال وہ بنو اسرائیل کے لڑکوں کو قتل کر رہا تھا۔

اس خوف کے مارے وہ ہر وقت کانپتی رہتی تھیں تو ہم نے وحی کی کہ ایک صندوق بنا لو، دودھ پلا کر بچے کو اس میں لٹا کر دریائے نیل میں اس صندوق کو چھوڑ دو چنانچہ وہ یہی کرتی رہیں۔ ایک رسی اس میں باندھ رکھی تھی جس کا ایک سرا اپنے مکان سے باندھ لیتی تھیں۔ ایک مرتبہ باندھ رہی تھیں جو رسی ہاتھ سے چھوٹ گئی اور صندوق کو پانی کی موجیں بہا لے چلیں۔ اب تو کلیجہ تھام کر رہ گئیں اس قدر غمزدہ ہوئیں کہ صبر ناممکن تھا، شاید راز فاش کر دیتیں لیکن ہم نے دل مضبوط کر دیا۔

صندوق بہتا ہوا فرعون کے محل کے پاس سے گزرا آل فرعون نے اسے اٹھا لیا کہ جس غم سے وہ بچنا چاہتے تھے، جس صدمے سے وہ محفوظ رہنا چاہتے تھے، وہ ان کے سامنے آ جائے۔ جسکی شمع حیات کو بجھانے کے لیے وہ بےگناہ معصوموں کا قتل عام کر رہے تھے، وہ انہی کے تیل سے انہی کے ہاں روشن ہوا اور اللہ کے ارادے بیروک پورے ہو جائیں۔ ان کا دشمن انہی کے ہاتھوں پلے انہی کا کھائے ان کے ہاں تربیت پائے۔

خود فرعون اور اس کی اہلیہ محترمہ نے جب بچے کو دیکھا، رگ رگ میں محبت سما گئی، لے کر پرورش کرنے لگے۔ آنکھوں کا تارا سمجھنے لگے شاہزادوں کی طرح ناز و نعمت سے پلنے لگے شاہی دربار میں رہنے لگے۔

اللہ نے اپنی محبت تجھ پر ڈال دی گو فرعون تیرا دشمن تھا لیکن رب کی بات کون بدلے؟ اللہ کے ارادے کو کون ٹالے؟ فرعون پر ہی کیا منحصر ہے، جو دیکھتا آپ کا والہ و شیدا بن جاتا۔ یہ اس لیے تھا کہ تیری پرورش میری نگاہ کے سامنے ہو، شاہی خوراکیں کھا عزت و وقعت کے ساتھ رہ۔

فرعون والوں نے صندوقچہ اٹھا لیا کھولا بچے کو دیکھا، پالنے کا ارادہ کیا لیکن آپ کسی دایہ کا دودھ دباتے ہی نہیں بلکہ منہ میں ہی نہیں لیتے۔ بہن جو صندوق کو دیکھتی بھالتی کنارے کنارے آ رہی تھی وہ بھی موقعہ پر پہنچ گئیں، کہنے لگیں کہ آپ اگر اس کی پرورش کی تمنا کرتے ہیں اور معقول اجرت بھی دیتے ہیں تو میں ایک گھرانہ بتاؤں جو اسے محبت سے پالے اور خیر خواہانہ برتاؤ کرے۔ سب نے کہا ہم تیار ہیں۔

آپ انہیں لیے ہوئے اپنی والدہ کے پاس پہنچیں، جب بچہ ان کی گود میں ڈال دیا گیا، آپ نے جھٹ سے منہ لگا دودھ پینا شروع کیا۔ جس سے فرعون کے ہاں بڑی خوشیاں منائی گئیں اور بہت کچھ انعام و اکرام دیا گیا۔ تنخواہ مقرر ہو گئی، اپنے ہی بچے کو دودھ پلاتیں اور تنخواہ اور انعام بھی اور عزت و اکرام بھی پاتیں۔ دنیا بھی ملے دین بھی بڑھے۔

اسی لیے حدیث میں آیا ہے کہ جو شخص اپنے کام کو کرے اور نیک نیتی سے کرے، اس کی مثال ام موسیٰ علیہ السلام کی مثال ہے کہ اپنے ہی بچے کو دودھ پلائے اور اجرت بھی لے۔

پس یہ بھی ہماری کرم فرمائی ہے کہ ہم نے تجھے تیری ماں کی گود میں واپس کیا کہ اس کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور غم و رنج جاتا رہے۔ پھر تمہارے ہاتھ سے ایک فرعونی قبطی مار ڈالا گیا تو بھی ہم نے تمہیں بچا لیا، فرعونیوں نے تمہارے قتل کا ارادہ کر لیا تھا، راز فاش ہو چکا تھا۔

تمہیں یہاں سے نجات دی تم بھاگ کھڑے ہوئے۔ مدین کے کنوئیں پر جا کر تم نے دم لیا۔ وہیں ہمارے ایک نیک بندے نے تمہیں بشارت سنائی کہ اب کوئی خوف نہیں ان ظالموں سے تم نے نجات پا لی۔ تجھے ہم نے بطور آزمائش اور بھی بہت سے فتنوں میں ڈالا۔

سعید بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے اس کی بابت سوال کیا تو آپ نے فرمایا اب تو دن ڈوبنے کو ہے واقعات زیادہ ہیں پھر سہی۔ چنانچہ میں نے دوسری صبح پھر سوال کیا تو آپ نے فرمایا سنو! فرعون کے دربار میں ایک دن اس بات کا ذکر چھڑا کہ اللہ کا وعدہ ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام سے یہ تھا کہ ان کی اولاد میں انبیاء اور بادشاہ ہوں گے۔

چنانچہ بنو اسرائیل اس کے آج تک منتظر ہیں اور انہیں یقین ہے کہ مصر کی سلطنت پھر ان میں جائے گی۔ پہلے تو ان کا خیال تھا کہ یہ وعدہ یوسف علیہ السلام کی بابت تھا لیکن ان کی وفات تک جب کہ یہ وعدہ پورا نہیں ہوا تو وہ اب عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ ان میں اپنے ایک پیغمبر کو بھیجے گا جن کے ہاتھوں انہیں سلطنت بھی ملے گی اور ان کی قومی و مذہبی ترقی ہو گی۔ ً

یہ باتیں کر کے انہوں نے مجلس مشاورت قائم کی کہ اب کیا کیا جائے جس سے آئندہ کے اس خطرے سے محفوظ رہ سکیں۔ آخر اس جلسے میں قرار داد منظور ہوئی کہ پولیس کا ایک محکمہ قائم کیا جائے جو شہر کا گشت لگاتا رہے اور بنی اسرائیل میں جو نرینہ اولاد ہو، اسے اسی وقت سرکار میں پیش کیا جائے اور ذبح کر دیا جائے۔

لیکن جب ایک مدت گزر گئی تو انہیں خیال پیدا ہوا کہ اس طرح تو بنی اسرائیل بالکل فنا ہو جائیں گے اور جو ذلیل خدمتیں ان سے لی جاتی ہیں، جو بیگاریں ان سے وصول ہو رہی ہیں، سب موقوف ہو جائیں گی، اس لیے اب تجویز ہوا کہ ایک سال ان کے بچوں کو چھوڑ دیا جائے اور ایک سال ان کے لڑکے قتل کر دیئے جائیں۔

اس طرح موجودہ بنی اسرائیلیوں کی تعداد بھی نہ بڑھے گی اور نہ اتنی کم ہو جائے گی کہ ہمیں اپنی خدمت گزاری کے لیے بھی نہ مل سکیں۔ جتنے بڈھے دو سال میں مریں گے، اتنے بچے ایک سال میں پیدا ہو جائیں گے۔

جس سال قتل موقوف تھا، اس سال تو ہارون علیہ السلام پیدا ہوئے اور جس سال قتل عام بچوں کا جاری تھا، اس برس موسیٰ علیہ السلام تولد ہوئے۔ آپ کی والدہ کی اس وقت کی گھبراہٹ اور پریشانی کا کیا پوچھنا؟ بے اندازہ تھی۔ ایک فتنہ تو یہ تھا۔ چنانچہ یہ خطرہ اس وقت دفع ہو گیا جب کہ اللہ کی وحی ان کے پاس آئی کہ ڈر خوف نہ کر ہم اسے تیری طرف پھر لوٹائیں گے اور اسے اپنا رسول بنائیں گے۔

چنانچہ بحکم الٰہی آپ نے اپنے بچے کو صندوق میں بند کر کے دریا میں بہا دیا، جب صندوق نظروں سے اوجھل ہو گیا تو شیطان نے دل میں وسوسے ڈالنے شروع کئے کہ افسوس اس سے تو یہی بہتر تھا کہ میرے سامنے ہی اسے ذبح کر دیا جاتا تو میں اسے خود ہی کفناتی دفناتی تو سہی لیکن اب تو میں نے خود اسے مچھلیوں کا شکار بنایا۔

یہ صندوق یونہی بہتا ہوا خاص فرعونی گھاٹ سے جا لگا، وہاں اس وقت محل کی لونڈیاں موجود تھیں، انہوں نے اس صندوق کو اٹھا لیا اور ارادہ کیا کہ کھول کر دیکھیں لیکن پھر ڈر گئیں کہ ایسا نہ ہو کہ چوری کا الزام لگے یونہی مقفل صندوق ملکہ فرعون کے پاس پہنچا دیا۔ یہ صندوق بادشاہ ملکہ کے سامنے کھولا گیا تو اس میں سے چاند جیسی صورت کا ایک چھوٹا سا معصوم بچہ نکلا جسے دیکھتے ہی فرعون کی بیوی صاحبہ کا دل محبت کے جوش سے اچھلنے لگا۔

ادھر ام موسیٰ کی حالت غیر ہو گئی، سوائے اپنے اس پیارے بچے کے خیال کے دل میں اور کوئی تصور ہی نہ تھا۔ ادھر ان قصائیوں کو جو حکومت کی طرف سے بچوں کے قتل کے محکمے کے ملازم تھے، معلوم ہوا تو وہ اپنی چھریاں تیز کئے ہوئے بڑھے اور ملکہ سے تقاضا کیا کہ بچہ انہیں سونپ دیں تاکہ وہ اسے ذبح کر ڈالیں۔

یہ دوسرا فتنہ تھا، آخر ملکہ نے جواب دیا کہ ٹھہرو میں خود بادشاہ سے ملتی ہوں اور اس بچے کو طلب کرتی ہوں، اگر وہ مجھے دے دیں تو خیر ورنہ تمہیں اختیار ہے۔ چنانچہ آپ آئیں اور بادشاہ سے کہا کہ یہ بچہ تو میری اور آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک ثابت ہو گا۔ اس خبیث نے کہا بس تم ہی اس سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی رکھو، میری ٹھنڈک وہ کیوں ہونے لگا؟ مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں۔

اللہ تعالٰی کی تدابیر اعلیٰ اور محروم ہدایت فرعون ٭٭

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہ حلف بیان فرماتے ہیں کہ اگر وہ بھی کہہ دیتا کہ ہاں بیشک وہ میری آنکھوں کی بھی ٹھنڈک ہے تو اللہ تعالیٰ اسے بھی ضرور راہ راست دکھا دیتا جیسا کہ اس کی بیوی صاحبہ مشرف بہ ہدایت ہوئی لیکن اس نے خود اس سے محروم رہنا چاہا اللہ نے بھی اسے محروم کر دیا۔

الغرض فرعون کو جوں توں راضی رضامند کر کے اس بچے کے پالنے کی اجازت لے کر آپ آئیں، اب محل کی جتنی دایہ تھیں سب کو جمع کیا ایک ایک کی گود میں بچہ دیا گیا لیکن اللہ تعالیٰ نے سب کا دودھ آپ پر حرام کر دیا، آپ نے کسی کا دودھ منہ میں لیا ہی نہیں۔ اس سے ملکہ گھبرائیں کہ یہ تو بہت ہی برا ہوا، یہ پیارا بچہ یونہی ہلاک ہو جائے گا۔

آخر سوچ کر حکم دیا کہ انہیں باہر لے جاؤ، ادھر ادھر تلاش کرو اور اگر کسی کا دودھ یہ معصوم قبول کرے تو اسے بہ منت سونپ دو۔ باہر بازار میں میلہ سا لگ گیا ہر شخص اس سعادت سے مالا مال ہونا چاہتا تھا لیکن موسیٰ علیہ السلام نے کسی کا دودھ نہ پیا۔ آپ کی والدہ نے اپنی بڑی صاحبزادی آپ کی بہن کو باہر بھیج رکھا تھا کہ وہ دیکھیں کیا ہوتا ہے؟ وہ اس مجمع میں موجود تھیں اور تمام واقعات دیکھ سن رہی تھیں۔

جب یہ لوگ عاجز آ گئے تو آپ نے فرمایا، اگر تم کہو تو میں ایک گھرانہ ایسا بتلاؤں جو اس کی نگہبانی کرے اور ہو بھی اس کا خیرخواہ۔ یہ کہنا تھا کہ لوگوں کو شک ہوا کہ ضرور یہ لڑکی اس بچے کو جانتی ہے اور اس کے گھر کو بھی پہچانتی ہے۔ اے ابن جبیر یہ تھا تیسرا فتنہ۔ لیکن اللہ نے لڑکی کو سمجھ دے دی اور اس نے جھٹ سے کہا کہ بھلا تم اتنا نہیں سمجھے کون بدنصیب ایسا ہو گا جو اس بچے کی خیر خواہی یا پرورش میں کمی کرے جو بچہ ہماری ملکہ کا پیارا ہے۔ کون نہ چاہے گا کہ یہ ہمارے ہاں پلے تاکہ انعام و اکرام سے اس کا گھر بھر جائے۔

یہ سن کر سب کی سمجھ میں آ گیا اسے چھوڑ دیا اور کہا بتا تو کون سی دایہ اس کے لیے تجویز کرتی ہے؟ اس نے کہا میں ابھی لائی، دوڑی ہوئی گئیں اور والدہ کو یہ خوشخبری سنائی۔ والدہ صاحبہ شوق و امید سے آئیں اپنے پیارے بچے کو گود میں لیا، اپنا دودھ منہ میں دیا بچے نے پیٹ بھر کر پیا۔ اسی وقت شاہی محلات میں یہ خوشخبری پہنچائی گئی ملکہ کا حکم ہوا کہ فوراً اس دایہ کو اور بچے کو میرے پاس لاؤ، جب ماں بیٹا پہنچے تو اپنے سامنے دودھ پلوایا اور یہ دیکھ کر کہ بچہ اچھی طرح دودھ پیتا ہے، بہت ہی خوش ہوئیں اور فرمانے لگیں کہ دائی اماں مجھے اس بچے سے وہ محبت ہے جو دنیا کی کسی اور چیز سے نہیں، تم یہیں محل میں رہو اور اس بچے کی پرورش کرو۔

لیکن موسیٰ علیہ السلام کی والدہ صاحبہ کے سامنے اللہ کا وعدہ تھا انہیں یقین کامل تھا اس لیے آپ ذرا رکیں اور فرمایا کہ یہ تو ناممکن ہے کہ میں اپنے گھر کو اور اپنے بچوں کو چھوڑ کر یہاں رہوں۔ اگر آپ چاہتی ہیں تو یہ بچہ میرے سپرد کر دیں میں اسے اپنے گھر لے جاتی ہوں ان کی پرورش میں کوئی کوتاہی نہ کروں گی۔ ملکہ صاحبہ نے مجبوراً اس بات کو بھی مان لیا اور آپ اسی دن خوشی خوشی اپنے بچے کو لیے ہوئے گھر آ گئیں۔

اس بچے کی وجہ سے اس محلے کے بنو اسرائیل بھی فرعونی مظالم سے رہائی پا گئے۔ جب کچھ زمانہ گزر گیا تو بادشاہ بیگم نے حکم بھیجا کہ کسی دن میرے بچے کو میرے پاس لاؤ، ایک دن مقرر ہو گیا، تمام ارکان سلطنت اور درباریوں کو حکم ہوا کہ آج میرا بچہ میرے پاس آئے گا۔ تم سب قدم قدم پر اس کا استقبال کرو اور دھوم دھام سے نذریں دیتے ہوئے اسے میرے محل سرائے تک لاؤ۔ چنانچہ جب سواری روانہ ہوئی، وہاں سے لے کر محل سرائے سلطانی تک برابر تحفے تحائف نذریں اور ہدیے پیشکش ہوتے رہے اور بڑے ہی عزت و اکرام کے ساتھ آپ یہاں پہنچے تو خود بیگم نے بھی خوشی خوشی بہت بڑی رقم پیش کی اور بڑی خوشی منائی گئی۔

پھر کہنے لگی کہ میں تو اسے بادشاہ کے پاس لے جاؤں گی، وہ بھی اسے انعام و اکرام دیں گے، لے گئیں اور بادشاہ کی گود میں لٹا دیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے اس کی داڑھی پکڑ کر زور سے گھسیٹی۔ فرعون کھٹک گیا اور اس کے درباریوں نے کہنا شروع کیا کہ کیا عجب یہی وہ لڑکا ہو آپ اسے فوراً قتل کرا دیجئیے۔

اے ابن جبیر یہ تھا چوتھا فتنہ۔ ملکہ بیتاب ہو کر بول اٹھیں، اے بادشاہ کیا ارادہ کر رہے ہو؟ آپ اسے مجھے دے چکے ہیں میں اسے اپنا بیٹا بنا چکی ہوں۔ بادشاہ نے کہا یہ سب ٹھیک ہے لیکن دیکھو تو اس نے تو آتے ہی داڑھی پکڑ کر مجھے نیچا کر دیا گویا یہی میرا گرانے والا اور مجھے تاخت و تاراج کرنے والا ہے۔

بیگم صاحبہ نے فرمایا، بادشاہ بچوں کو ان چیزوں کی کیا تمیز؟ سنو میں ایک فیصلہ کن بات بتاؤں، اس کے سامنے دو انگارے آگ کے سرخ رکھ دو اور دو موتی آبدار چمکتے ہوئے رکھ دو پھر دیکھو یہ کیا اٹھاتا ہے؟ اگر موتی اٹھا لے تو سمجھنا کہ اس میں عقل ہے اور اگر آگ کے انگارے تھام لے تو سمجھ لینا کہ عقل نہیں۔ جب عقل و تمیز نہیں تو اس کی داڑھی پکڑ لینے پر اتنے لمبے خیالات کر کے اس کی جان کا دشمن بن جانا کون سی دانائی کی بات ہے؟

چنانچہ یہی کیا گیا دونوں چیزیں آپ کے سامنے رکھی گئیں۔ آپ نے دہکتے ہوئے انگارے اٹھا لیے اسی وقت وہ چھین لیے کہ ایسا نہ ہو ہاتھ جل جائیں۔ اب فرعون کا غصہ ٹھنڈا ہوا اور اس کا بدلا ہوا رخ ٹھیک ہو گیا۔ حق تو یہ ہے کہ اللہ کو جو کام کرنا مقصود ہوتا ہے، اس کے قدرتی اسباب مہیا ہو ہی جاتے ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام کی دربار فرعون میں فرعون کے خاص محل میں فرعون کی بیوی کی گود میں ہی پرورش ہوتی رہی۔ یہاں تک کہ آپ اچھی عمر کو پہنچ گئے اور بالغ ہو گئے۔

اب تو فرعونیوں کے جو مظالم اسرائیلیوں پر ہو رہے تھے، ان میں بھی کمی ہو گئی تھی سب امن و امان سے تھے۔ ایک دن موسیٰ علیہ السلام کہیں جا رہے تھے کہ راستے میں ایک فرعونی اور ایک اسرائیلی کی لڑائی ہو رہی تھی۔ اسرائیلی نے موسیٰ علیہ السلام سے فریاد کی آپ کو سخت غصہ آیا اسلئے کہ اس وقت وہ فرعونی اس بنی اسرائیلی کو دبوچے ہوئے تھا، آپ نے اسے ایک مکا مارا، اللہ کی شان مکا لگتے ہی وہ مر گیا۔

یہ تو لوگوں کو عموماً معلوم تھا کہ موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیلیوں کی طرف داری کرتے ہیں لیکن لوگ اس کی وجہ اب تک یہی سمجھتے تھے کہ چونکہ آپ نے انہی میں دودھ پیا ہے، اس لیے ان کے طرفدار ہیں۔ اصلی راز کا علم تو صرف آپ کی والدہ کو تھا اور ممکن ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے کلیم کو بھی معلوم کرا دیا ہو۔ اسے مردہ دیکھتے ہی موسیٰ علیہ السلام کانپ اٹھے کہ یہ تو شیطانی حرکت ہے وہ بہکانے والا اور کھلا دشمن ہے۔

پھر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنے لگے کہ باری تعالیٰ میں نے اپنی جان پر ظلم کیا تو معاف فرما۔ پروردگار نے بھی آپ کی اس خطا سے درگزر فرما لیا وہ تو غفور و رحیم ہے ہی۔ چونکہ قتل کا معاملہ تھا، آپ پھر بھی خوفزدہ ہی رہے، تاک جھانک میں رہے کہ کہیں معاملہ کھل تو نہیں گیا۔ ادھر فرعون کے پاس شکایت ہوئی کہ ایک قبطی کو کسی بنی اسرائیلی نے مار ڈالا ہے، فرعون نے حکم جاری کر دیا کہ واقعہ کی پوری تحقیق کرو قاتل کو تلاش کر کے پکڑ لاؤ اور گواہ بھی پیش کرو اور جرم ثابت ہو جانے کی صورت میں اسے بھی قتل کر دو۔

پولیس نے ہر چند تفتیش کی لیکن قاتل کا کوئی سراغ نہ ملا۔ اتفاق کی بات کہ دوسرے ہی دن موسیٰ علیہ السلام پھر کہیں جا رہے تھے کہ دیکھا وہی بنی اسرائیلی شخص ایک دوسرے فرعونی سے جھگڑ رہا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کو دیکھتے ہی وہ دہائی دینے لگا لیکن اس نے یہ محسوس کیا کہ شاید موسیٰ علیہ السلام اپنے کل کے فعل سے نادم ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام کو بھی اس کا یہ باربار کا جھگڑنا اور فریاد کرنا برا معلوم ہوا اور کہا تم تو بڑے لڑاکا ہو، یہ فرما کر اس فرعونی کو پکڑنا چاہا لیکن اس بنی اسرائیلی بزدل نے سمجھا کہ شاید آپ چونکہ مجھ پر ناراض ہیں مجھے ہی پکڑنا چاہتے ہیں۔

حالانکہ اس کا یہ صرف بزدلانہ خیال تھا آپ تو اسی فرعونی کو پکڑنا چاہتے تھے اور اسے بچانا چاہتے تھے لیکن خوف و ہراس کی حالت میں بےساختہ اس کے منہ سے نکل گیا کہ موسیٰ (‏‏‏‏علیہ السلام) جیسے کہ کل تو نے ایک آدمی کو مار ڈالا تھا، کیا آج مجھے مار ڈالنا چاہتا ہے؟ یہ سن کر وہ فرعونی اسے چھوڑ بھاگا، دوڑا گیا اور سرکاری سپاہ کو اس واقعہ کی خبر کر دی۔

فرعون کو بھی قصہ معلوم ہوا۔ اسی وقت جلادوں کو حکم دیا کہ موسیٰ (‏‏‏‏علیہ السلام) کو پکڑ کر قتل کر دو۔ یہ لوگ شارع عام سے آپ کی جستجو میں چلے۔ ادھر ایک بنی اسرائیلی نے راستہ کاٹ کر نزدیک کے راستے سے آ کر موسیٰ علیہ السلام کو خبر کر دی۔ اے ابن جبیر رحمہ اللہ یہ ہے پانچواں فتنہ۔

موسیٰ علیہ السلام یہ سنتے ہی مٹھیاں بند کرکے مصر سے بھاگ کھڑے ہوئے، نہ کبھی پیدل چلے تھے نہ کبھی کسی مصیبت میں پھنسے تھے، شہزادوں کی طرح لاڈ چاؤ میں پلے تھے، نہ راستے کی خبر تھی نہ کبھی سفر کا اتفاق پڑا تھا۔ رب پر بھروسہ کر کے یہ دعا کر کے کہ اے اللہ مجھے سیدھی راہ لے چلنا، چل کھڑے ہوئے یہاں تک کہ مدین کی حدود میں پہنچے۔

یہاں دیکھا کہ لوگ اپنے جانوروں کو پانی پلا رہے ہیں وہیں دو لڑکیوں کو دیکھا کہ اپنے جانوروں کو روکے کھڑی ہیں۔ پوچھا کہ تم ان کے ساتھ اپنے جانوروں کو پانی کیوں نہیں پلا لیتیں؟ الگ کھڑی ہوئی انہیں کیوں روک رہی ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ اس بھیڑ میں ہمارے بس کی بات نہیں کہ اپنے جانوروں کو پانی پلائیں، ہم تو جب یہ لوگ پانی پلا چکتے ہیں ان کا بقیہ اپنے جانوروں کو پلا دیا کرتی ہیں۔ آپ فوراً آگے بڑھے اور ان کے جانوروں کو پانی پلا دیا۔ چونکہ بہت جلد پانی کھینچا، آپ بہت قوی آدمی تھے، سب سے پہلے ان کے جانوروں کو سیر کر دیا۔

یہ اپنی بکریاں لے کر اپنے گھر روانہ ہوئیں اور آپ ایک درخت کے سائے تلے بیٹھ گئے اور اللہ سے دعا کرنے لگے کہ پروردگار میں تیری تمام تر مہربانیوں کا محتاج ہوں۔ یہ دونوں لڑکیاں جب اپنے والد کے پاس پہنچیں تو انہوں نے کہا، آج کیا بات ہے کہ تم وقت سے پہلے ہی آ گئیں؟ اور بکریاں بھی خوب آسودہ اور شکم سیر معلوم ہوتی ہیں۔ تو ان بچیوں نے سارا واقعہ کہہ سنایا آپ نے حکم دیا کہ تم میں سے ایک ابھی چلی جائے اور انہیں میرے پاس بلا لائے۔ وہ آئیں اور موسیٰ علیہ السلام کو اپنے والد صاحب کے پاس لے گئیں۔ انہوں نے سرسری ملاقات کے بعد واقعہ پوچھا تو آپ نے سارا قصہ کہہ سنایا، اس پر وہ فرمانے لگے اب کوئی ڈر کی بات نہیں آپ ان ظالموں سے چھوٹ گئے۔ ہم لوگ فرعون کی رعایا نہیں نہ ہم پر اس کا کوئی دباؤ ہے۔

اسی وقت ایک لڑکی نے اپنے باپ سے کہا کہ ابا جی انہوں نے ہمارا کام کر دیا ہے اور یہ ہیں بھی قوت والے امانت دار شخص، کیا اچھا ہو کہ آپ انہیں اپنے ہاں مقرر کر لیجئے کہ یہ اجرت پر ہماری بکریاں چرا لایا کریں۔ باپ کو غیرت اور غصہ آ گیا اور پوچھا بیٹی تمہیں یہ کیسے معلوم ہو گیا کہ یہ قوی اور امین ہیں؟ بچی نے جواب دیا کہ قوت تو اس وقت معلوم ہوئی جب انہوں نے ہماری بکریوں کے لیے پانی نکالا اتنے بڑے ڈول کو اکیلے ہی کھینچتے تھے اور بڑی پھرتی اور ہرپن سے۔ امانت داری یوں معلوم ہوئی کہ میری آواز سن کر انہوں نے نظر اونچی کی اور جب یہ معلوم ہو گیا کہ میں عورت ہوں، پھر نیچی گردن کر کے میری باتیں سنتے رہے، واللہ! آپ کا پورا پیغام پہنچانے تک انہوں نے نگاہ اونچی نہیں کی۔ پھر مجھ سے فرمایا کہ تم میرے پیچھے رہو مجھے دور سے راستہ بتا دیا کرنا۔ یہ بھی دلیل ہے ان کی اللہ خوفی اور امانت داری کی۔ باپ کی غیرت و حمیت بھی رہ گئی، بچی کی طرف سے بھی دل صاف ہو گیا اور موسیٰ علیہ السلام کی محبت دل میں سما گئی۔

اب موسیٰ علیہ السلام سے فرمانے لگے، میرا ارادہ ہے کہ اپنی ان دونوں لڑکیوں میں سے ایک کا نکاح آپ کے ساتھ کر دوں اس شرط پر کہ آپ آٹھ سال تک میرے ہاں کام کاج کرتے رہیں، ہاں اگر دس سال تک کریں تو اور بھی اچھا ہے، ان شاءاللہ آپ دیکھ لیں گے کہ میں بھلا آدمی ہوں۔ چنانچہ یہ معاملہ طے ہو گیا اور اللہ کے پیغمبر علیہ السلام نے بجائے آٹھ سال کے دس سال پورے کئے۔

سیدنا سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں پہلے مجھے یہ معلوم نہ تھا اور ایک نصرانی عالم مجھ سے یہ پوچھ بیٹھا تھا تو میں اسے کوئی جواب نہ دے سکا، پھر جب میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا اور آپ نے جواب دیا تو میں نے اس سے ذکر کیا، اس نے کہا تمہارے استاد بڑے عالم ہیں۔ میں نے کہا، ہاں ہیں ہی۔ اب موسیٰ علیہ السلام اس مدت کو پوری کر کے اپنی اہلیہ صاحبہ کو لیے ہوئے یہاں سے چلے۔

پھر وہ واقعات ہوئے جن کا ذکر ان آیتوں میں ہے۔ آگ دیکھی، گئے، اللہ سے کلام کیا، لکڑی کا اژدھا بننا، ہاتھ کا نورانی بننا ملاحظہ کیا، نبوت پائی، فرعون کی طرف بھیجے گئے تو قتل کے واقعہ کے بدلے کا اندیشہ ظاہر فرمایا۔ اس سے اطمینان حاصل کر کے زبان کی گرہ کشائی کی طلب کی۔ اس کو حاصل کر کے اپنے بھائی ہارون کی ہمدردی اور شرکت کار چاہی۔ یہ بھی حاصل کر کے لکڑی لیے ہوئے شاہ مصر کی طرف چلے۔

ادھر ہارون علیہ السلام کے پاس وحی پہنچی کہ اپنے بھائی کی موافقت کریں اور ان کا ساتھ دیں۔ دونوں بھائی ملے اور فرعون کے دربار میں پہنچے۔ اطلاع کرائی بڑی دیر میں اجازت ملی، اندر گئے، فرعون پر ظاہر کیا کہ ہم اللہ کے رسول بن کر تیرے پاس آئے ہیں۔ اب جو سوال جواب ہوئے وہ قرآن میں موجود ہیں۔

فرعون نے کہا اچھا تم چاہتے کیا ہو؟ اور واقعہ قتل یاد دلایا جس کا عذر موسیٰ علیہ السلام نے بیان کیا جو قرآن میں موجود ہے اور کہا، ہمارا ارادہ یہ ہے کہ تو ایمان لا اور ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو اپنی غلامی سے رہائی دے۔ اس نے انکار کیا اور کہا کہ اگر سچے ہو تو کوئی معجزہ دکھاؤ، آپ نے اسی وقت اپنی لکڑی زمین پر ڈال دی وہ زمین پر پڑتے ہی ایک زبردست خوفناک اژدھے کی صورت میں منہ پھاڑے کچلیاں نکالے فرعون کی طرف لپکا۔ مارے خوف کے فرعون تخت سے کود گیا اور بھاگتا ہوا عاجزی سے فریاد کرنے لگا کہ موسیٰ (‏‏‏‏علیہ السلام) اللہ کے واسطے اسے پکڑ لو۔ آپ نے ہاتھ لگایا اسی وقت لاٹھی اپنی اصلی حالت میں آ گئی۔

پھر آپ نے اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈال کر نکالا تو وہ بغیر کسی مرض کے داغ کے چمکتا ہوا نکلا جسے دیکھ کر وہ حیران ہو گیا، آپ نے پھر ہاتھ ڈال کر نکالا تو وہ اپنی اصلی حالت میں تھا۔ اب فرعون نے اپنے درباریوں کی طرف دیکھ کر کہا کہ تم نے دیکھا، یہ دونوں جادوگر ہیں چاہتے ہیں کہ اپنے جادو کے زور سے تمہیں تمہارے ملک سے نکال باہر کریں اور تمہارے ملک پر قابض ہو کر تمہارے طریقے مٹا دیں۔

پھر موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ ہمیں آپ کی نبوت ماننے سے بھی انکار ہے اور آپ کا کوئی مطالبہ بھی ہم پورا نہیں کر سکتے بلکہ ہم اپنے جادوگروں کو تمہارے مقابلہ کے لیے بلا رہے ہیں جو تمہارے اس جادو پر غالب آ جائیں گے۔ چنانچہ یہ لوگ اپنی کوششوں میں مشغول ہو گئے۔ تمام ملک سے جادوگروں کو بڑی عزت سے بلوایا جب سب جمع ہو گئے تو انہوں نے پوچھا کہ اس کا جادو کس قسم کا ہے؟ فرعون والوں نے کہا لکڑی کا سانپ بنا دیتا ہے۔

انہوں نے کہا، اس میں کیا ہے؟ ہم لکڑیوں کی رسیوں کے وہ سانپ بنائیں گے کہ روئے زمین پر ان کا کوئی مقابلہ نہ کر سکے۔ لیکن ہمارے لیے انعام مقرر ہو جانا چاہیئے۔ فرعون نے ان سے قول و قرار کیا کہ انعام کیسا؟ میں تو تمہیں اپنا مقرب خاص اور درباری بنا لوں گا اور تمہیں نہال نہال کر دونگا جو مانگو گے پاؤ گے۔ چنانچہ انہوں نے اعلان کر دیا کہ عید کے روز دن چڑھے فلاں میدان میں مقابلہ ہو گا۔ مروی ہے کہ ان کی یہ عید عاشورا کے دن تھی۔

اس دن تمام لوگ صبح ہی صبح اس میدان میں پہنچ گئے کہ آج چل کر دیکھیں گے کہ کون غالب آتا ہے؟ ہم تو جادوگروں کے کمالات کے قائل ہیں وہی غالب آئیں گے اور ہم انہی کی مانیں گے۔ مذاق سے اس بات کو بدل کر کہتے تھے کہ چلو انہی دونوں جادوگروں کے مطیع بن جائیں گے اگر وہ غالب رہیں۔ میدان میں آ کر جادوگروں نے انبیاء اللہ علیہم السلام سے کہا کہ لو اب بتاؤ، تم پہلے اپنا جادو ظاہر کرتے ہو یا ہم ہی شروع کریں؟ آپ نے فرمایا تم ہی ابتداء کرو تاکہ تمہارے ارمان پورے ہوں۔

اب انہوں نے اپنی لکڑیاں اور رسیاں میدان میں ڈالیں تو ایسا لگا کہ وہ سب سانپ اور بلائیں بن کر اللہ کے نبیوں کی طرف دوڑیں جس سے خوفزدہ ہو کر آپ پیچھے ہٹنے لگے۔ اس وقت اللہ کی وحی آئی کہ آپ اپنی لکڑی زمین پر ڈال دیجئیے، آپ نے ڈالدی، وہ ایک خوفناک بھیانک عظیم الشان اژدھابن کر ان کی طرف دوڑا یہ لکڑیاں رسیاں سب گڈ مڈ ہو گئیں اور وہ ان سب کو نگل گیا۔ جادوگر سمجھ گئے کہ یہ جادو نہیں یہ تو سچ مچ اللہ کیطرف کا نشان ہے، جادو میں یہ بات کہاں؟

چنانچہ سب نے اپنے ایمان کا اعلان کر دیا کہ ہم موسیٰ کے رب پر ایمان لائے اور ان دونوں بھائیوں کی نبوت ہمیں تسلیم ہے۔ ہم اپنے گزشتہ گناہوں سے توبہ کرتے ہیں۔ فرعون اور فرعونیوں کی کمر ٹوٹ گئی، رسوا ہوئے، منہ کالے پڑ گئے، ذلت کے ساتھ خاموش ہو گئے۔ خون کے گھونٹ پی کر چپ ہو گئے۔ ادھر یہ ہو رہا تھا۔ ادھر فرعون کی بیوی صاحبہ رضی اللہ عنہا جنہوں نے موسیٰ علیہ السلام کو اپنے سگے بچے کی طرح پالا تھا، بیقرار بیٹھی تھیں اور اللہ سے دعائیں مانگ رہی تھیں کہ اللہ ذولجلال اپنے نبی کو غالب کرے۔ فرعونیوں نے بھی اس حال کو دیکھا تھا لیکن انہوں نے خیال کیا کہ اپنے خاوند کی طرفداری میں ان کا یہ حال ہے۔

یہاں سے ناکام واپس جانے پر فرعون نے بےایمانی پر کمر باندھ لی۔ اللہ کی طرف سے موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں بہت سے نشانات ظاہر ہوئے۔ جب کبھی کوئی پکڑ آ جاتی، یہ گھبرا کر بلکہ گڑ گڑا کر وعدہ کرتا کہ اچھا اس مصیبت کے ہٹ جانے پر میں بنی اسرائیل کو تیرے ساتھ کر دونگا لیکن جب عذاب ہٹ جاتا پھر منکر بن کر سرکشی پر آ جاتا اور کہتا تیرا رب اس کے سوا کچھ اور بھی کر سکتا ہے؟ چنانچہ ان پر طوفان آیا، ٹڈیاں آئیں، جوئیں آئیں، مینڈک آئے، خون آیا اور بھی بہت سی صاف صاف نشانیاں دیکھیں۔ جہاں آفت آئی، ڈرا وعدہ کیا، جہاں وہ ٹل گئی، مکر گیا اور اکڑ گیا۔ اب اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا کہ بنی اسرائیل کو لے کر یہاں سے نکل جاؤ آپ راتوں رات انہیں لے کر روانہ ہو گئے۔

صبح فرعونیوں نے دیکھا کہ رات کو سارے بنی اسرائیل چلے گئے ہیں۔ انہوں نے فرعون سے کہا۔ اس نے سارے ملک میں احکام بھیج کر ہر طرف سے فوجیں جمع کیں اور بہت بڑی جمعیت کے ساتھ ان کا پیچھا کیا۔ راستے میں جو دریا پڑتا تھا اس کی طرف اللہ کی وحی پہنچی کہ تجھ پر جب میرے بندے موسیٰ علیہ السلام کی لکڑی پڑے تو تو انہیں راستہ دے دینا۔ تجھ میں بارہ راستے ہو جائیں کہ بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے الگ الگ اپنی راہ لگ جائیں۔ پھر جب یہ پار ہو جائیں اور فرعونی آ جائیں تو تو مل جانا اور ان میں سے ایک کو بھی بے ڈبوئے نہ چھوڑنا۔

موسیٰ علیہ السلام جب دریا پر پہنچے دیکھا کہ وہ موجیں مار رہا ہے پانی چڑھا ہوا ہے شور اٹھ رہا ہے، گھبرا گئے اور لکڑی مارنا بھول گئے۔ دریا بیقرار یوں تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو اس کے کسی حصے پر موسیٰ علیہ السلام لکڑی مار دیں اور اسے خبر نہ ہو تو عذاب الٰہی میں بہ سبب اللہ کی نافرمانی کے پھنس جائے۔ اتنے میں فرعون کا لشکر بنی اسرائیل کے سر پر جا پہنچا، یہ گھبرا گئے اور کہنے لگے لو موسیٰ ہم تو پکڑ لیے گئے۔ اب آپ وہ کیجئے جو اللہ کا آپ کو حکم ہے یقیناً نہ تو اللہ جھوٹا ہے نہ آپ۔

آپ نے فرمایا مجھے سے تو یہ فرمایا گیا ہے کہ جب تو دریا پر پہنچے گا، وہ تجھے بارہ راستے دیدے گا، تو گزر جانا۔ اسی وقت یاد آیا کہ لکڑی مارنے کا حکم ہوا ہے، چنانچہ لکڑی ماری۔ ادھر فرعونی لشکر کا اول حصہ بنی اسرائیل کے آخری حصے کے پاس آ چکا تھا کہ دریا خشک ہو گیا اور اس میں راستے نمایاں ہو گئے اور آپ اپنی قوم کو لیے ہوئے اس میں بیخطر اتر گئے اور با آرام جانے لگے۔ جب یہ نکل چکے، فرعونی سپاہ ان کے تعاقب میں دریا میں اتری۔

جب یہ سارا لشکر اس میں اتر گیا تو فرمان الٰہی کے مطابق دریا رواں ہو گیا اور سب کو بیک وقت غرق کر دیا۔ بنو اسرایئل اس واقعہ کو اپنی آنکھوں دیکھ رہے تھے تاہم انہوں نے کہا کہ اے رسول اللہ! (‏‏‏‏علیہ السلام) ہمیں کیا خبر کہ فرعون بھی مرا یا نہیں؟ آپ نے دعا کی اور دریا نے فرعون کی بے جان لاش کو کنارے پر پھینک دیا۔ جسے دیکھ کر انہیں یقین کامل ہو گیا کہ ان کا دشمن مع اپنے لاؤ و لشکر کے تباہ ہو گیا۔

فرعون سے نجات کے بعد بنی اسرائیل کی نافرمانیاں ٭٭

اب یہاں سے آگے چلے تو دیکھا کہ ایک قوم اپنے بتوں کی مجاور بن کر بیٹھی ہے تو کہنے لگے اے اللہ کے رسول ہمارے لئے بھی کوئی معبود ایسا ہی مقرر کر دیجئیے۔ موسیٰ علیہ السلام نے ناراض ہو کر کہا کہ تم بڑے ہی جاہل لوگ ہو، تم نے اتنی بڑی عبرتناک نشانیاں دیکھیں۔ ایسے اہم واقعات سنے لیکن اب تک نہ عبرت ہے نہ غیرت۔

یہاں سے آگے بڑھ کر ایک منزل پر آپ نے قیام کیا اور یہاں اپنے خلیفہ اپنے بھائی ہارون علیہ السلام کو بنا کر قوم سے فرمایا کہ میری واپسی تک ان کی فرمانبرداری کرتے رہنا میں اپنے رب کے پاس جا رہا ہوں۔ تیس دن کا اس کا وعدہ ہے۔ چنانچہ قوم سے الگ ہو کر وعدے کی جگہ پہنچ کر تیس دن رات کے روزے پورے کر کے اللہ سے باتیں کرنے کا دھیان پیدا ہوا لیکن یہ سمجھ کر کہ روزوں کی وجہ سے منہ سے بھبکا نکل رہا ہو گا، تھوڑی سی گھاس لے کر آپ نے چبا لی۔

اللہ تعالیٰ نے باوجود علم کے دریافت فرمایا کہ ایسا کیوں کیا؟ آپ نے جواب دیا، صرف اس لیے کہ تجھ سے باتیں کرتے وقت میرا منہ خوشبودار ہو۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، کیا تجھے معلوم نہیں کہ روزہ دار کے منہ کی بو مجھے مشک و عنبر کی خوشبو سے زیادہ اچھی لگتی ہے؟ اب تو دس روزے اور رکھ پھر مجھ سے کلام کرنا۔ آپ نے روزے رکھنا شروع کر دیئے۔ قوم پر تیس دن جب گزر گئے اور حسب وعدہ موسیٰ علیہ السلام نہ لوٹے تو وہ غمگین رہنے لگے۔

ہارون علیہ السلام نے ان میں خطبہ کیا اور فرمایا کہ جب تم مصر سے چلے تھے تو قبطیوں کی رقمیں تم میں سے بعض پر ادھار تھیں اسی طرح ان کی امانتیں بھی تمہارے پاس رہ گئی ہیں، یہ ہم انہیں واپس تو کرنے کے نہیں لیکن میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ وہ ہماری ملکیت میں رہیں۔ اس لیے تم ایک گہرا گڑھا کھودو اور جو اسباب برتن بھانڈا زیور سونا چاندی وغیرہ ان کا تمہارے پاس ہے، سب اس میں ڈالو پھر آگ لگا دو۔

چنانچہ یہی کیا گیا۔ ان کے ساتھ سامری نامی ایک شخص تھا، یہ گائے بچھڑے پوجنے والوں میں سے تھا، بنی اسرائیل میں سے نہ تھا لیکن بوجہ پڑوسی ہونے کے اور فرعون کی قوم میں سے نہ ہونے کے یہ بھی ان کے ساتھ وہاں سے نکل آیا تھا، اس نے کسی نشان سے کچھ مٹھی میں اٹھا لیا تھا۔ ہارون علیہ السلام نے فرمایا تو بھی اسے ڈال دے، اس نے جواب دیا کہ یہ تو اس کے اثر سے ہے جو تمہیں دریا سے پار کرا لے گیا۔ خیر میں اسے ڈال دیتا ہوں لیکن اس شرط پر کہ آپ اللہ سے دعا کریں کہ اس سے وہ بن جائے جو میں چاہتا ہوں۔

آپ نے دعا کی اور اس نے اپنی مٹھی میں جو تھا اسے ڈال دیا اور کہا میں چاہتا ہوں اس کا ایک بچھڑا بن جائے۔ قدرت الٰہی سے اس گڑھے میں جو تھا، وہ ایک بچھڑے کی صورت میں ہو گیا جو اندر سے کھوکھلا تھا اس میں روح نہ تھی لیکن ہوا اس کے پیچھے کے سوراخ سے جا کر منہ سے نکلتی تھی اس سے ایک آواز پیدا ہوتی تھی۔

بنو اسرائیل نے پوچھا سامری یہ کیا ہے؟ اس بے ایمان نے کہا، یہی تمہارا سب کا رب ہے لیکن موسیٰ علیہ السلام راستہ بھول گئے اور دوسری جگہ رب کی تلاش میں چلے گئے۔ اس بات نے بنی اسرائیل کے کئی فرقے کر دیئے۔ ایک فرقے نے تو کہا کہ موسیٰ علیہ السلام کے آنے تک ہم اس کی بابت کوئی بات طے نہیں کر سکتے، ممکن ہے یہی اللہ ہو تو ہم اس کی بے ادبی کیوں کریں؟ اور اگر یہ رب نہیں ہے تو موسیٰ علیہ السلام کے آتے ہی حقیقت کھل جائے گی۔

دوسری جماعت نے کہا، محض واہیات ہے یہ شیطانی حرکت ہے ہم اس لغویت پر مطلقاً ایمان نہیں رکھتے، نہ یہ ہمارا رب نہ ہمارا اس پر ایمان۔ ایک پاجی فرقے نے دل سے اسے مان لیا اور سامری کی بات پر ایمان لائے مگر بہ ظاہر اس کی بات کو جھٹلایا۔ ہارون علیہ السلام نے اسی وقت سب کو جمع کر کے فرمایا کہ لوگو! یہ اللہ کی طرف سے تمہاری آزمائش ہے تم اس جھگڑے میں کہاں پھنس گئے؟ تمہارا رب تو رحمان ہے تم میری اتباع کرو اور میرا کہنا مانو۔ انہوں نے کہا آخر اس کی کیا وجہ کہ تیس دن کا وعدہ کر کے موسیٰ علیہ السلام گئے ہیں اور آج چالیس دن ہونے کو آئے لیکن اب تک لوٹے نہیں۔ بعض بیوقوفوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ ان سے ان کا رب خطا کر گیا اب یہ اس کی تلاش میں ہوں گے۔

ادھر دس روزے اور پورے ہونے کے بعد موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ سے ہمکلامی کا شرف حاصل ہوا۔ آپ کو بتایا گیا کہ آپ کے بعد آپ کی قوم کا اس وقت کیا حال ہے؟ آپ اسی وقت رنج و افسوس اور غم و غصے کے ساتھ واپس لوٹے اور یہاں آ کر قوم سے بہت کچھ کہا سنا، اپنے بھائی کے سر کے بال پکڑ کر گھسیٹنے لگے۔ غصے کی زیادتی کی وجہ سے تختیاں بھی ہاتھ سے پھینک دیں۔ پھر اصل حقیقت معلوم ہو جانے پر آپ نے اپنے بھائی سے معذرت کی، ان کے لیے استغفار کیا۔

اور سامری کی طرف متوجہ ہو کر فرمانے لگے کہ تو نے ایسا کیوں کیا؟ اس نے جواب دیا کہ اللہ کے بھیجے ہوئے کے پاؤں تلے سے میں نے ایک مٹھی اٹھالی یہ لوگ اسے نہ پہچان سکے اور میں نے جان لیا تھا۔ میں نے وہی مٹھی اس آگ میں ڈال دی تھی میری رائے میں یہی بات آئی۔ آپ نے فرمایا، جا اس کی سزا دنیا میں تو یہ ہے کہ تو یہی کہتا رہے کہہاتھ لگانا نہیں پھر ایک وعدے کا وقت ہے جس کا ٹلنا ناممکن ہے اور تیرے دیکھتے دیکھتے ہم تیرے اس معبود کو جلا کر اس کی خاک بھی دریا میں بہا دیں گے۔ چنانچہ آپ نے یہی کیا۔

اس وقت بنی اسرائیل کو یقین آ گیا کہ واقعی وہ اللہ نہ تھا۔ اب وہ بڑے نادم ہوئے اور سوائے ان مسلمانوں کے جو ہارون علیہ السلام کے ہم عقیدہ رہے تھے، باقی کے لوگوں نے عذر معذرت کی اور کہا کہ اے اللہ کے نبی! اللہ سے دعا کیجئے کہ وہ ہمارے لیے توبہ کا دروازہ کھول دے، جو وہ فرمائے گا ہم بجا لائیں گے تاکہ ہماری یہ زبردست خطا معاف ہو جائے۔

آپ نے بنی اسرائیل کے اس گروہ میں سے ستر لوگوں کو چھانٹ کر علیحدہ کیا اور توبہ کے لیے چلے، وہاں زمین پھٹ گئی اور آپ کے سب ساتھی اس میں اتار دیئے گئے۔ موسیٰ علیہ السلام کو فکر لاحق ہوا کہ میں بنی اسرائیل کو کیا منہ دکھاؤں گا؟ گریہ و زاری شروع کی اور دعا کی کہ اے اللہ! اگر تو چاہتا تو اس سے پہلے ہی مجھے اور ان سب کو ہلاک کر دیتا، ہمارے بیوقوفوں کے گناہ کے بدلے تو ہمیں ہلاک نہ کر۔

آپ تو ان کے ظاہر کو دیکھ رہے تھے اور اللہ کی نظریں ان کے باطن پر تھیں۔ ان میں ایسے بھی تھے جو بہ ظاہر مسلمان بنے ہوئے تھے لیکن دراصل دلی عقیدہ ان کا اس بچھڑے کے رب ہونے پر تھا۔ ان ہی منافقین کی وجہ سے سب کو تہ زمین کر دیا گیا تھا۔ نبی اللہ علیہ السلام کی اس آہ و زاری پر رحمت الٰہی جوش میں آئی اور جواب ملا کہ یوں تو میری رحمت سب پر چھائے ہوئے ہے لیکن میں اسے ان کے نام ہبہ کروں گا جو متقی پرہیزگار ہوں، زکوٰۃ کے ادا کرنے والے ہوں، میری باتوں پر ایمان لائیں اور میرے اس رسول و نبی کی اتباع کریں جس کے اوصاف وہ اپنی کتابوں میں لکھے پاتے ہیں یعنی توراۃ و انجیل میں۔

کلیم اللہ علیہ السلام نے عرض کی کہ یا الٰہی میں نے اپنی قوم کے لیے توبہ طلب کی، تو نے جواب دیا کہ تو اپنی رحمت کو ان کے ساتھ کر دے گا جو آگے آنے والے ہیں، پھر اللہ مجھے بھی تو اپنے اسی رحمت والے نبی کی امت میں پیدا کرتا۔ رب العالمین نے فرمایا، سنو ان کی توبہ اس وقت قبول ہو گی کہ یہ لوگ آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرنا شروع کر دیں، نہ باپ بیٹے کو دیکھے نہ بیٹا باپ کو چھوڑے، آپس میں گتھ جائیں اور ایک دوسرے کو قتل کرنا شروع کر دیں۔

چنانچہ بنو اسرائیل نے یہی کیا اور جو منافق لوگ تھے، انہوں نے بھی سچے دل سے توبہ کی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی، جو بچ گئے تھے وہ بھی بخشے گئے، جو قتل ہوئے وہ بھی بخش دیئے گئے۔ موسیٰ علیہ السلام اب یہاں سے بیت المقدس کی طرف چلے۔ توراۃ کی تختیاں اپنے ساتھ لیں اور انہیں احکام الٰہی سنائے جو ان پر بہت بھاری پڑے اور انہوں نے صاف انکار کر دیا۔ چنانچہ ایک پہاڑ ان کے سروں پر معلق کھڑا کر دیا گیا، وہ مثل سائبان کے سروں پر تھا اور ہر دم ڈر تھا کہ اب گرا، انہوں نے اب اقرار کیا اور تورات قبول کر لی پہاڑ ہٹ گیا۔

اس پاک زمین پر پہنچے جہاں کلیم اللہ علیہ السلام انہیں لے جانا چاہتے تھے، دیکھا کہ وہاں ایک بڑی طاقتور زبردست قوم کا قبضہ ہے۔ تو موسیٰ علیہ السلام کے سامنے نہایت نامردی سے کہا کہ یہاں تو بڑی زور آور قوم ہے، ہم میں ان کے مقابلہ کی طاقت نہیں، یہ نکل جائیں تو ہم شہر میں داخل ہو سکتے ہیں۔ یہ تو یونہی نامردی اور بزدلی ظاہر کرتے رہے۔ ادھر اللہ تعالیٰ نے ان سرکشوں میں سے دو شخصوں کو ہدایت دے دی، وہ شہر سے نکل کر موسیٰ علیہ السلام کی قوم میں آ ملے اور انہیں سمجھانے لگے کہ تم ان کے جسموں اور تعداد سے مرعوب نہ ہو جاؤ، یہ لوگ بہادر نہیں ان کے دل گردے کمزور ہیں، تم آگے تو بڑھو۔ ان کے شہر کے دروازے میں گئے اور ان کے ہاتھ پاؤں ڈھیلے ہوئے، یقیناً تم ان پر غالب آ جاؤ گے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ دونوں شخص جنہوں نے بنی اسرائیل کو سمجھایا اور انہیں دلیر بنایا، خود بنی اسرایئل میں سے ہی تھے «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔

لیکن ان کے سمجھانے بجھانے، اللہ کے حکم ہو جانے اور موسیٰ علیہ السلام کے وعدے نے بھی ان پر کوئی اثر نہ کیا بلکہ انہوں نے صاف کورا جواب دے دیا کہ جب تک یہ لوگ شہر میں ہیں، ہم تو یہاں سے اٹھنے کے بھی نہیں، موسیٰ علیہ السلام تو آپ اپنے رب کو اپنے ساتھ لے کر چلا جا اور ان سے لڑ بھڑ لے، ہم یہاں بیٹھے ہوئے ہیں۔

اب تو موسیٰ علیہ السلام سے صبر نہ ہو سکا، آپ کے منہ سے ان بزدلوں اور ناقدروں کے حق میں بد دعا نکل گئی اور آپ نے ان کا نام فاسق رکھ دیا۔ اللہ کی طرف سے بھی ان کا یہی نام مقرر ہو گیا اور انہیں اسی میدان میں قدرتی طور پر قید کر دیا گیا۔ چالیس سال انہیں یہیں گزر گئے کہیں قرار نہ تھا، اسی بیاباں میں پریشانی کے ساتھ بھٹکتے پھرتے تھے۔

اسی میدان قید میں ان پر ابر کا سایہ کر دیا گیا اور من و سلویٰ اتار دیا گیا، کپڑے نہ پھٹتے تھے نہ میلے ہوتے تھے۔ ایک چوکونہ پتھر رکھا ہوا تھا جس پر موسیٰ علیہ السلام نے لکڑی ماری تو اس میں سے بارہ نہریں جاری ہو گئیں، ہر طرف سے تین تین لوگ چلتے چلتے آگے بڑھ جاتے، تھک کر قیام کر دیتے، صبح اٹھتے تو دیکھتے کہ وہ پتھر وہیں ہے جہاں کل تھا۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس حدیث کو مرفوع بیان کیا ہے۔

سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے جب یہ روایت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنی تو فرمایا کہ اس فرعونی نے موسیٰ علیہ السلام کے اگلے دن کے قتل کی خبر رسانی کی تھی یہ بات سمجھ میں نہیں آتی۔ کیونکہ قبطی کے قتل کے وقت سوائے اس بنی اسرایئلی ایک شخص کے جو قبطی سے لڑ رہا تھا، وہاں کوئی اور نہ تھا۔

اس پر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بہت بگڑے اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا ہاتھ تھام کر سیدنا سعد بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس لے گئے اور ان سے کہا، آپ کو یاد ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے اس شخص کا حال بیان فرمایا تھا جس نے موسیٰ کے قتل کے راز کو کھولا تھا، بتاؤ وہ بنی اسرائیلی شخص تھا یا فرعونی؟ سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا، بنی اسرائیلی سے اس فرعونی نے سنا، پھر اس نے جا کر حکومت سے کہا اور خود اس کا شاہد بنا [تفسیر ابن جریر الطبری:24131:ضعیف] ‏‏‏‏

یہی روایت اور کتابوں میں بھی ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے اپنے کلام سے بہت تھوڑا سا حصہ مرفوع بیان کیا گیا ہے۔ بہت ممکن ہے کہ آپ نے بنو اسرائیل میں سے کسی سے یہ روایت لی ہو کیونکہ ان سے روایتیں لینا مباح ہیں۔ یا تو آپ نے سیدنا کعب احبار رضی اللہ عنہ سے ہی یہ روایت سنی ہو گی اور ممکن ہے کسی اور سے سنی ہو۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔ میں نے اپنے استاد شیخ حافظ ابو الحجاج مزی علیہ السلام سے بھی یہی سنا ہے۔