قرآن مجيد

سورة طه
لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَمَا تَحْتَ الثَّرَى[6]
اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے اور جو ان دونوں کے درمیان ہے اور جو گیلی مٹی کے نیچے ہے۔[6]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 1، 2، 3، 4، 5، 6، 7، 8،

علم قرآن سب سے بڑی دولت ہے ٭٭

سورۃ البقرہ کی تفسیر کے شروع میں سورتوں کے اول حروف مقطعات کی تفسیر پوری طرح بیان ہو چکی ہے جسے دوبارہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ گو یہ بھی مروی ہے کہ مراد طہٰ سے اے شخص ہے، کہتے ہیں کہ یہ نبطی کلمہ ہے۔ کوئی کہتا ہے معرب ہے۔ یہ بھی مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں ایک پاؤں زمین پر ٹکاتے اور دوسرا اٹھا لیتے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری۔ [ضعیف:اس کی سند میں ابو جعفر راوی ضعیف ہے] ‏‏‏‏

یعنی طہٰ یعنی زمین پر دونوں پاؤں ٹکا دیا کر۔ ہم نے یہ قرآن تجھ پر اس لیے نہیں اتارا کہ تجھے مشقت و تکلیف میں ڈال دیں۔ کہتے ہیں کہ جب قرآن پر عمل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے شروع کر دیا تو مشرکین کہنے لگے کہ یہ لوگ تو اچھی خاصی مصیبت میں پڑ گئے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ یہ پاک قرآن تمہیں مشقت میں ڈالنے کو نہیں اترا بلکہ یہ نیکوں کے لیے عبرت ہے، یہ الہامی علم ہے۔ جسے یہ ملا اسے بہت بڑی دولت مل گئی۔ چنانچہ بخاری و مسلم میں ہے کہ جس کے ساتھ اللہ کا ارادہ بھلائی کا ہو جاتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے۔ [صحیح بخاری:71] ‏‏‏‏

حافظ ابوالقاسم طبرانی رحمتہ اللہ علیہ ایک مرفوع صحیح حدیث لائے ہیں کہ قیامت کے دن جب کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے فیصلے فرمانے کے لیے اپنی کرسی پر اجلاس فرمائے گا تو علماء سے فرمائے گا کہ میں نے اپنا علم اور اپنی حکمت تمہیں اسی لیے عطا فرمائی تھی کہ تمہارے تمام گناہوں کو بخش دوں اور کچھ پرواہ نہ کروں کہ تم نے کیا کیا ہے؟ [طبرانی کبیر:1381:ضعیف] ‏‏‏‏

پہلے لوگ اللہ کی عبادت کے وقت اپنے آپ کو رسیوں میں لٹکا لیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ مشقت اپنے اس کلام پاک کے ذریعہ آسان کر دی اور فرما دیا کہ یہ قرآن تمہیں مشقت میں ڈالنا نہیں چاہتا جیسے فرمان ہے، «فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ» [73-المزمل:20] ‏‏‏‏ ” جس قدر آسانی سے پڑھا جائے پڑھ لیا کرو “

یہ قرآن شقاوت اور بدبختی کی چیز نہیں بلکہ رحمت و نور اور دلیل جنت ہے۔ یہ قرآن نیک لوگوں کے لیے جن کے دلوں میں خوف الٰہی ہے، تذکرہ وعظ و ہدایت و رحمت ہے۔ اسے سن کر اللہ کے نیک انجام بندے حلال حرام سے واقف ہو جاتے ہیں اور اپنے دونوں جہان سنوار لیتے ہیں۔

یہ قرآن تیرے رب کا کلام ہے اسی کی طرف سے نازل شدہ ہے جو ہرچیز کا خالق مالک رازق قادر ہے۔ جس نے زمین کو نیچی اور کثیف بنایا ہے اور جس نے آسمان کو اونچا اور لطیف بنایا ہے۔

ترمذی وغیرہ کی صحیح حدیث میں ہے کہ ہر آسمان کی موٹائی پانچ سو سال کی راہ ہے اور ہر آسمان سے دوسرے آسمان تک کا فاصلہ بھی پانچ سو سال کا ہے۔ [سنن ترمذي:3298،قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏

حضرت عباس رضی اللہ عنہ والی حدیث امام ابن ابی حاتم نے اسی آیت کی تفسیر میں وارد کی ہے۔ وہ رحمان اپنے عرش پر مستوی ہے اس کی پوری تفسیر سورۃ الاعراف میں گزر چکی ہے یہاں وارد کرنے کی ضرورت نہیں۔ سلامتی والا طریقہ یہی ہے کہ آیات و احادیث صفات کو بطریق سلف صالحین ان کے ظاہری الفاظ کے مطابق ہی مانا جائے بغیر کیفیت طلبی کے اور بغیر تحریف و تشبیہ اور تعطیل و تمثیل کے۔

تمام چیزیں اللہ کی ہی ملک ہیں۔ اسی کے قبضے اور ارادے اور چاہت تلے ہیں۔ وہی سب کا خالق، مالک، الٰہ اور رب ہے کسی کو اس کے ساتھ کسی طرح کی شرکت نہیں۔ ساتویں زمین کے نیچے بھی جو کچھ ہے سب اسی کا ہے۔

کعب رحمہ اللہ کہتے ہیں اس زمین کے نیچے پانی ہے پانی کے نیچے پھر زمین ہے پھر اس کے نیچے پانی ہے اسی طرح مسلسل، پھر اس کے نیچے ایک پتھر ہے اس کے نیچے ایک فرشتہ ہے اس کے نیچے ایک مچھلی ہے، جس کے دونوں بازو عرش تک ہیں۔ اس کے نیچے ہوا، خلا اور ظلمت ہے یہیں تک انسان کا علم ہے باقی اللہ جانے۔

حدیث میں ہے ہر دو زمینوں کے درمیان پانچ سو سال کا فاصلہ ہے۔ سب سے اوپر کی زمین مچھلی کی پشت پر ہے جس کے دونوں بازوں آسمان سے ملے ہوئے ہیں، یہ مچھلی ایک پتھر پر ہے، وہ پتھر فرشتے کے ہاتھ میں ہے۔ دوسری زمین ہواؤں کا خزانہ ہے۔ تیسری میں جہنم کے پتھر ہیں، چوتھی میں جہنم کی گندھک ہے، پانچویں میں جہنم کے سانپ ہیں، چھٹی میں جہنمی بچھو ہیں۔ ساتویں میں دوزخ ہے وہیں ابلیس جکڑا ہوا ہے ایک ہاتھ آگے ہے ایک پیچھے ہے، جب اللہ چاہتا ہے اسے چھوڑ دیتا ہے۔ یہ حدیث بہت ہی غریب ہے اور اس کا فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہونا بھی غور طلب ہے۔ [مستدرک حاکم:594/4:ضعیف] ‏‏‏‏

مسند ابویعلیٰ میں ہے، جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں، ہم غزوہ تبوک سے لوٹ رہے تھے گرمی سخت تڑاخے کی پڑ رہی تھی دو دو چار چار آدمی منتشر ہو کر چل رہے تھے، میں لشکر کے شروع میں تھا، اچانک ایک شخص آیا اور سلام کر کے پوچھنے لگا، تم میں سے محمد (‏‏‏‏ صلی اللہ علیہ وسلم )‏‏‏‏‏‏‏‏ کون ہیں؟۔ میں اس کے ساتھ ہو گیا میرے ساتھی آگے بڑھ گئے۔ جب لشکر کے درمیان کا حصہ آیا تو اسی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھے، میں نے اسے بتلایا کہ یہ ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سرخ رنگ کی اونٹنی پر سوار ہیں سر پر بوجہ دھوپ کے کپڑا ڈالے ہوئے ہیں،

وہ آپ کی سواری کے پاس گیا اور نکیل تھام کر عرض کرنے لگا کہ آپ ہی محمد ہیں صلی اللہ علیہ وسلم ؟ آپ نے جواب دیا کہ ہاں، اس نے کہا، میں چند باتیں آپ سے دریافت کرنا چاہتا ہوں جنہیں زمین والوں میں سے بجز ایک دو آدمیوں کے اور کوئی نہیں جانتا۔

آپ نے فرمایا تمہیں جو کچھ پوچھنا ہو پوچھ لو۔ اس نے کہا بتائیے انبیاء اللہ سوتے بھی ہیں؟ آپ نے فرمایا ان کی آنکھیں سو جاتی ہیں لیکن دل جاگتا رہتا ہے۔ اس نے کہا بجا ارشاد ہوا۔

اب یہ فرمائیے کہ کیا وجہ ہے کہ بچہ کبھی تو باپ کی شباہت پر ہوتا ہے کبھی ماں کی؟ آپ نے فرمایا سنو مرد کا پانی سفید اور غلیظ ہے اور عورت کا پانی پتلا ہے جو پانی غالب آگیا اسی پر شبیہ جاتی ہے۔ اس نے کہا یہ بھی بجا ارشاد فرمایا۔

اچھا یہ بھی فرمائیے کہ بچے کے کون سے اعضاء مرد کے پانی سے بنتے ہیں اور کون سے عورت کے پانی سے؟ فرمایا مرد کے پانی سے ہڈیاں، رگ اور پٹھے اور عورت کے پانی سے گوشت، خون اور بال۔ اس نے کہا یہ بھی صحیح جواب ملا۔

اچھا یہ بتلائیے کہ اس زمین کے نیچے کیا ہے؟ فرمایا ایک مخلوق ہے۔ کہا ان کے نیچے کیا ہے؟ فرمایا زمین۔ کہا اس کے نیچے کیا ہے؟ فرمایا پانی۔ کہا پانی کے نیچے کیا ہے؟ فرمایا اندھیرا۔ کہا اس کے نیچے؟ فرمایا ہوا۔ کہا ہوا کے نیچے؟ فرمایا تر مٹی۔ کہا اس کے نیچے؟ آپ کے آنسو نکل آئے اور ارشاد فرمایا کہ مخلوق کا علم تو یہیں تک پہنچ کر ختم ہو گیا۔ اب خالق کو ہی اس کے آگے کا علم ہے۔

اے سوال کرنے والے اس کی بابت تو جس سے سوال کر رہا ہے وہ تجھ سے زیادہ جاننے والا نہیں۔ اس نے آپ کی صداقت کی گواہی دی۔ آپ نے فرمایا اسے پہچانا بھی؟ لوگوں نے کہا اللہ اور اس کے رسول کو ہی پورا علم ہے آپ نے فرمایا یہ جبرائیل علیہ السلام تھے۔
[مسند ابویعلیٰ:ضعیف جداً] ‏‏‏‏

یہ حدیث بھی بہت ہی غریب ہے اور اس میں جو واقعہ ہے، بڑا ہی عجیب ہے اس کے راویوں میں قاسم بن عبدالرحمٰن کا تفرد ہے جنہیں امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ کسی چیز کے برابر نہیں۔

امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ بھی انہیں ضعیف کہتے ہیں۔ امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ معروف شخص نہیں اور اس حدیث میں خلط ملط کر دیا ہے۔ اللہ ہی جانتا ہے کہ جان بوجھ کر ایسا کیا ہے یا ایسی ہی کسی سے لی ہے۔ اللہ وہ ہے جو ظاہر و باطن، اونچی نیچی، چھوٹی بڑی سب کچھ جانتا ہے۔

جیسے فرمان ہے «قُلْ أَنزَلَهُ الَّذِي يَعْلَمُ السِّرَّ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ إِنَّهُ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا» [25-الفرقان:6] ‏‏‏‏ ” اعلان کر دے کہ اس قرآن کو اس نے نازل فرمایا ہے جو آسمان و زمین کے اسرار سے واقف ہے جو غفور و رحیم ہے۔ “

ابن آدم خود جو چھپائے اور جو اس پر خود پر بھی چھپا ہوا ہو اللہ تعالیٰ کے پاس کھلا ہوا ہے۔ اس کے عمل کو اس کے علم سے بھی پہلے اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔ تمام گزشتہ موجودہ اور آئندہ مخلوق کا علم اس کے پاس ایسا ہی ہے جیسا ایک شخص کا علم۔ سب کی پیدائش اور مار کر جلانا بھی اس کے نزدیک ایک شخص کی پیدائش اور اس کی موت کے بعد کی دوسری بار کی زندگی کے مثل ہے۔ تیرے دل کے خیالات کو اور جو خیالات نہیں آتے ان کو بھی وہ جانتا ہے۔

تجھے زیادہ سے زیادہ آج کے پوشیدہ اعمال کی خبر ہے اور اسے تو تم کل کیا چھپاؤ گے ان کا بھی علم ہے۔ ارادے ہی نہیں بلکہ وسوسے بھی اس پر ظاہر ہیں۔ کئے ہوئے عمل اور جو کرے گا وہ عمل بھی اس پر ظاہر ہیں۔ وہی معبود برحق ہے اعلیٰ صفتیں اور بہترین نام اسی کے ہیں۔ سورۃ الاعراف کی تفسیر کے آخر میں اسماء حسنی کے متعلق حدیثیں گزر چکی ہیں۔