سیدنا خباب بن ارت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں لوہار تھا اور میرا کچھ قرض عاص بن وائل کے ذمے تھا۔ میں اس سے تقاضا کرنے کو گیا تو اس نے کہا میں تو تیرا قرض اس وقت تک ادا نہ کروں گا جب تک کہ تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری سے نہ نکل جائے۔ میں نے کہا، میں تو یہ کفر اس وقت تک بھی نہیں کر سکتا کہ تو مر کر دوبارہ زندہ ہو۔ اس کافر نے کہا، بس تو پھر یہی رہی، جب میں مرنے کے بعد زندہ ہوں گا تو ضرور مجھے میرا مال اور میری اولاد بھی ملے گی، وہیں تیرا قرض بھی ادا کر دوں گا، تو آ جانا۔ اس پر یہ آیت اتری ۔ [صحیح بخاری:2091]
دوسری روایت میں ہے کہ میں نے مکے میں اس کی تلوار بنائی تھی، اس کی اجرت میری ادھار تھی۔ اللہ فرماتا ہے کہ ” کیا اسے غیب کی خبر مل گئی؟ یا اس نے اللہ رحمان سے کوئی قول و قرار لے لیا؟ “
اور روایت میں ہے کہ اس پر میرے بہت سے درہم بطور قرض کے چڑھ گئے تھے، اس لیے مجھے جو جواب دیا، میں نے اس کا تذکرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، اس پر یہ آیتیں آتریں ۔
اور روایت میں ہے کہ کئی ایک مسلمانوں کا قرض اس کے ذمے تھا، ان کے تقاضوں پر اس نے کہا کہ کیا تمہارے دین میں یہ نہیں کہ جنت میں سونا، چاندی، ریشم، پھل پھول وغیرہ ہوں گے؟ ہم نے کہا ہاں ہے، تو کہا بس تو یہ چیزیں مجھے ضرور ملیں گی میں وہیں تم سب کو دے دوں گا۔ پس یہ آیتیں «وَنَرِثُهُ مَا يَقُولُ وَيَأْتِينَا فَرْدًا» [19-مريم:80] تک اتریں ۔
«وَلَدًا» کی دوسری قرأت واؤ کے پیش سے بھی ہے معنی دونوں کے ایک ہی ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ زبر سے تو مفرد کے معنی میں ہے اور پیش سے جمع کے معنی میں ہے۔ قیس قبیلے کی یہی لغت ہے «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
اس مغرور کو جواب ملتا ہے کہ ” کیا اسے غیب پر اطلاع ہے؟ اسے آخرت کے اپنے انجام کی خبر ہے؟ جو یہ قسمیں کھا کر کہہ رہا ہے؟ یا اس نے اللہ سے کوئی قول و قرار، عہد و پیمان لیا ہے یا اس نے اللہ کی توحید مان لی ہے کہ اس کی وجہ سے اسے دخول جنت کا یقین ہو؟ “
چنانچہ آیت «أَطَّلَعَ الْغَيْبَ أَمِ اتَّخَذَ عِندَ الرَّحْمَٰنِ عَهْدًا» [19-مریم:78] میں اللہ کی وحدانیت کے کلمے کا قائل ہو جانا ہی مراد لیا گیا ہے۔ پھر اس کے کلام کی تاکید کے ساتھ نفی کی جاتی ہے۔ اور اس کے خلاف موکد بیان ہو رہا ہے کہ اس کا یہ غرور کا کلمہ بھی ہمارے ہاں لکھا جا چکا ہے، اس کا کفر بھی ہم پر روشن ہے۔ دار آخرت میں تو اس کے لیے عذاب ہی عذاب ہے، جو ہر وقت بڑھتا رہے گا۔ اسے مال و اولاد وہاں بھی ملنا تو کجا، اس کے برعکس دنیا کا مال و متاع اور اولاد و کنبہ بھی اس سے چھین لیا جائے گا اور وہ تن تنہا ہمارے حضور میں پیش ہو گا۔
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی قرأت میں «وَنَرِثُهُ مَا عِنْدَهُ» ہے۔ ” اس کی جمع جتھا اور اس کے عمل ہمارے قبضے میں ہیں۔ یہ تو خالی ہاتھ سب کچھ چھوڑ چھاڑ ہمارے سامنے پیش ہوگا “۔