اس نے کہا ایسے ہی ہے، تیرے رب نے کہا ہے یہ میرے لیے آسان ہے اور تاکہ ہم اسے لوگوں کے لیے بہت بڑی نشانی اور اپنی طرف سے عظیم رحمت بنائیں اور یہ شروع سے ایک طے کیا ہوا کام ہے۔[21]
اوپر زکریا علیہ السلام کا ذکر ہوا تھا اور یہ بیان فرمایا گیا تھا کہ وہ اپنے پورے بڑھاپے تک بے اولاد رہے، ان کی بیوی کو کچھ ہوا ہی نہ تھا بلکہ اولاد کی صلاحیت ہی نہ تھی۔ اس پر اللہ نے اس عمر میں ان کے ہاں اپنی قدرت سے اولاد عطا فرمائی، یحییٰ علیہ السلام پیدا ہوئے جو نیک کار اور وفا شعار تھے۔
اس کے بعد اس سے بھی بڑھ کر اپنی قدرت کا نظارہ پیش کرتا ہے۔ مریم علیہ السلام کا واقعہ بیان کرتا ہے کہ وہ کنواری تھیں۔ کسی مرد کا ہاتھ تک انہیں نہ لگا تھا اور بے مرد کے اللہ تعالیٰ نے محض اپنی قدرت کاملہ سے انہیں اولاد عطا فرمائی، عیسیٰ علیہ السلام جیسا فرزند انہیں دیا جو اللہ کے برگزیدہ پیغمبر اور روح اللہ اور کلمۃ اللہ علیہ السلام تھے۔
پس چونکہ ان دو قصوں میں پوری مناسبت ہے، اسی لیے یہاں بھی اور سورۃ آل عمران میں بھی اور سورۃ انبیاء میں بھی ان دونوں کو متصل بیان فرمایا۔ تاکہ بندے اللہ تعالیٰ کی بے مثال قدرت اور عظیم الشان سلطنت کا معائنہ کرلیں۔
حضرت مریم علیہا السلام عمران کی صاحبزادی تھیں، داؤد علیہ السلام کی نسل میں سے تھیں۔ بنو اسرائیل میں یہ گھرانہ طیب و طاہر تھا۔ سورۃ آل عمران میں آپ علیہ السلام کی پیدائش وغیرہ کا مفصل بیان گزر چکا ہے۔ اس زمانے کے دستور کے مطابق آپ علیہ السلام کی والدہ صاحبہ نے آپ علیہ السلام کو بیت المقدس کی مسجد قدس کی خدمت کے لیے دنیوی کاموں سے آزاد کر دیا تھا۔ اللہ نے یہ نذر قبول فرما لی اور مریم کی نشو و نما بہترین طور پر کی اور آپ اللہ کی عبادت میں، ریاضت میں اور نیکیوں میں مشغول ہو گئیں۔ آپ کی عبادت وریاضت، زہد وتقویٰ زبان زد عوام ہو گیا۔
آپ اپنے خالو زکریا علیہ السلام کی پرورش و تربیت میں تھیں۔ جو اس وقت کے بنی اسرائیلی نبی تھے۔ تمام بنی اسرائیل دینی امور میں انہی کے تابع فرمان تھے۔ زکریا علیہ السلام پر مریم علیہا السلام کی بہت سی کرامتیں ظاہر ہوئیں خصوصاً یہ کہ جب کبھی آپ علیہ السلام ان کے عبادت خانے میں جاتے، نئی قسم کے بے موسم پھل وہاں موجود پاتے۔ دریافت کیا کہ مریم یہ کہاں سے آئے؟ جواب ملا کہ اللہ تعالیٰ کے پاس سے، وہ ایسا قادر ہے کہ جسے چاہے بے حساب روزیاں عطا فرمائے۔
اب اللہ تعالیٰ کا ارادہ ہوا کہ مریم کے بطن سے عیسیٰ علیہ السلام کو پیدا کرے جو منجملہ پانچ اولوالعزم پیغمبروں کے ایک ہیں۔ آپ مسجد قدس کے شرقی جانب گئیں یا تو بوجہ کپڑے آنے کے یا کسی اور سبب سے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اہل کتاب پر بیت اللہ شریف کی طرف متوجہ ہونا اور حج کرنا فرض کیا گیا تھا لیکن چونکہ مریم صدیقہ رضی اللہ عنہا بیت المقدس سے مشرق کی طرف گئی تھیں جیسے فرمان الٰہی ہے، اس وجہ سے ان لوگوں نے مشرق رخ نمازیں شروع کر دیں۔ عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت گاہ کو انہوں نے از خود قبلہ بنا لیا۔
مروی ہے کہ جس جگہ آپ گئی تھیں، وہ جگہ یہاں سے دور اور بےآباد تھی۔ کہتے ہیں کہ وہاں آپ کا کھیت تھا، جسے پانی پلانے کے لیے آپ گئی تھیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہیں حجرہ بنا لیا تھا کہ لوگوں سے الگ تھلگ عبادت الٰہی میں فراغت کے ساتھ مشغول رہیں۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ٭٭
جب یہ لوگوں سے دور گئیں اور ان میں اور آپ میں حجاب ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے پاس اپنے امین فرشتے جبرائیل علیہ السلام کو بھیجا، وہ پوری انسانی شکل میں آپ پر ظاہر ہوئے۔ یہاں روح سے مراد یہی بزرگ فرشتے ہیں۔ جیسے آیت قرآن «نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ عَلَىٰ قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنذِرِينَ» [26-الشعراء:193،194] میں ہے۔
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ روز ازل میں جب کہ ابن آدم کی تمام روحوں سے اللہ کی الوہیت کا اقرار لیا گیا تھا، ان روحوں میں عیسیٰ علیہ السلام کی روح بھی تھی۔ اسی روح کو بصورت انسان اللہ کی طرف سے بھیجا گیا تھا۔ اسی روح نے آپ سے باتیں کیں اور آپ کے جسم میں حلول کرگئی۔ لیکن یہ قول علاوہ غریب ہونے کے بالکل ہی منکر ہے، بہت ممکن ہے کہ یہ بنی اسرئیلی قول ہو۔
آپ نے جب اس تنہائی کے مکان میں ایک غیر شخص کو دیکھا تو یہ سمجھ کر کہ کہیں یہ کوئی برا آدمی نہ ہو، اسے اللہ کا خوف دلایا کہ اگر تو پرہیزگار ہے تو اللہ کا خوف کر۔ میں اللہ کی پناہ چاہتی ہوں۔ اتنا پتہ تو آپ کو ان کے بشرے سے چل گیا تھا کہ یہ کوئی بھلا انسان ہے۔ اور یہ جانتی تھیں کہ نیک شخص کو اللہ کا ڈر اور خوف کافی ہے۔ فرشتے نے آپ کا خوف و ہراس، ڈر اور گھبراہٹ دور کرنے کے لیے صاف کہہ دیا کہ اور کوئی گمان نہ کرو، میں تو اللہ کا بھیجا ہوا فرشتہ ہوں۔
کہتے ہیں کہ اللہ کا نام سن کر جبرائیل علیہ السلام کانپ اٹھے اور اپنی صورت پر آگئے اور کہہ دیا کہ میں اللہ کا قاصد ہوں۔ اس لیے اللہ نے مجھے بھیجا ہے کہ وہ تجھے ایک پاک نفس فرزند عطا کرنا چاہتا ہے۔
«لِاَھَبَ» کی دوسری قرأت «لِيَهَبَ» ہے۔ ابو عمرو بن علا جو ایک مشہور و معروف قاری ہیں، ان کی یہی قرأت ہے۔ دونوں قرأتوں کی توجیہ اور مطلب بالکل صاف ہے اور دونوں میں استلزام بھی ہے۔
یہ سن کر مریم صدیقہ علیہا السلام کو اور تعجب ہوا کہ سبحان اللہ مجھے بچہ کیسے ہوگا؟ میرا تو نکاح ہی نہیں ہوا اور برائی کا مجھے تصور تک نہیں ہوا۔ میرے جسم پر کسی انسان کا کبھی ہاتھ ہی نہیں لگا۔ میں بدکار نہیں پھر میرے ہاں اولاد کیسی؟
«بَغِيًّا» سے مراد زنا کار ہے، جیسے حدیث میں بھی یہ لفظ اسی معنی میں ہے کہ «مَهْرُ الْبَغِيِّ» زانیہ کی خرچی حرام ہے ۔ [صحیح بخاری:2337]
فرشتے نے آپ کے تعجب کو یہ فرما کر دور کرنا چاہا کہ ”یہ سب سچ ہے لیکن اللہ اس پر قادر ہے کہ بغیر خاوند کے اور بغیر کسی اور بات کے بھی اولاد دیدے۔ وہ جو چاہے ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس بچے کو اور اس واقعہ کو اپنے بندوں کی تذکیر کا سبب بنا دے گا۔ یہ قدرت الٰہی کی ایک نشانی ہو گی تاکہ لوگ جان لیں کہ وہ خالق ہر طرح کی پیدائش پر قادر ہے۔“
آدم علیہ السلام کو بغیر عورت مرد کے پیدا کیا، حواء کو صرف مرد سے بغیر عورت کے پیدا کیا۔ باقی تمام انسانوں کو مرد و عورت سے پیدا کیا سوائے عیسیٰ علیہ السلام کے کہ وہ بغیر مرد کے صرف عورت سے ہی پیدا ہوئے۔
پس تقسیم کی یہ چار ہی صورتیں ہو سکتی تھیں جو سب پوری کر دی گئیں اور اپنی کمال قدرت اور عظیم سلطنت کی مثال قائم کر دی۔ فی الواقع نہ اس کے سوا کوئی معبود نہ پروردگار۔ اور یہ بچہ اللہ کی رحمت بنے گا، رب کا پیغمبر بنے گا، اللہ کی عبادت کی دعوت اس کی مخلوق کو دے گا۔
جیسے اور آیت میں ہے کہ «إِذْ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّـهَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِّنْهُ اسْمُهُ الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَجِيهًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ وَيُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلًا وَمِنَ الصَّالِحِينَ» [3-آل عمران:45،46] ” فرشتوں نے کہا اے مریم! اللہ تعالیٰ تجھے اپنے ایک کلمے کی خوشخبری سناتا ہے جس کا نام مسیح عیسیٰ بن مریم ہوگا جو دنیا اور آخرت میں آبرو دار ہوگا اور ہوگا بھی اللہ کا مقرب، وہ گہوارے میں ہی بولنے لگے گا اور ادھیڑ عمر میں بھی۔ اور صالح لوگوں میں سے ہو گا یعنی بچپن اور بڑھاپے میں اللہ کے دین کی دعوت دے گا “۔
مروی ہے کہ مریم رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ خلوت اور تنہائی کے موقعہ پر مجھ سے عیسیٰ علیہ السلام بولتے تھے اور مجمع میں اللہ کی تسبیح بیان کرتے تھے۔ یہ حال اس وقت کا ہے جب کہ آپ علیہ السلام میرے پیٹ میں تھے۔
پھر فرماتا ہے کہ ” یہ کام علم اللہ میں مقدر اور مقرر ہو چکا ہے۔ وہ اپنی قدرت سے یہ کام پورا کر کے ہی رہے گا “۔ بہت ممکن ہے کہ یہ قول بھی جبرائیل علیہ السلام کا ہو۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ فرمان الٰہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہو۔ اور مراد اس سے روح کا پھونک دینا ہو۔
جیسے فرمان ہے کہ «وَمَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهِ مِن رُّوحِنَا» [66-التحریم:12] ” عمران کی بیٹی مریم باعصمت بیوی تھیں۔ ہم نے اس میں روح پھونکی تھی “۔
اور آیت میں ہے «الَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهَا مِن رُّوحِنَا» [21-الأنبياء:91] ” وہ باعصمت عورت جس میں ہم نے اپنی روح پھونک دی “۔
پس اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ یہ تو ہو کر ہی رہے گا۔ اللہ تعالیٰ اس کا ارادہ کر چکا ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔