قرآن مجيد

سورة الكهف
وَيَسْأَلُونَكَ عَنْ ذِي الْقَرْنَيْنِ قُلْ سَأَتْلُو عَلَيْكُمْ مِنْهُ ذِكْرًا[83]
اور وہ تجھ سے ذوالقرنین کے بارے میں پوچھتے ہیں تو کہہ میں تمھیں اس کا کچھ ذکر ضرور پڑھ کر سناؤں گا۔[83]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 83، 84،

کفار کے سوالات کے جوابات ٭٭

پہلے گزر چکا ہے کہ کفار مکہ نے اہل کتاب سے کہلوایا تھا کہ ہمیں کچھ ایسی باتیں بتلاؤ جو ہم محمد [ صلی اللہ علیہ وسلم ] ‏‏‏‏ سے دریافت کریں اور ان کے جواب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ بن پڑیں۔ تو انہوں نے سکھایا تھا کہ ایک تو ان سے اس شخص کا واقعہ پوچھو جس نے روئے زمین کی سیاحت کی تھی۔ دوسرا سوال ان سے ان نوجوانوں کی نسبت کرو جو بالکل لا پتہ ہو گئے ہیں اور تیسرا سوال ان سے روح کی بابت کرو۔ ان کے ان سوالوں کے جواب میں یہ سورت نازل ہوئی۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:22861] ‏‏‏‏ یہ بھی روایت ہے کہ یہودیوں کی ایک جماعت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ذوالقرنین کا قصہ دریافت کرنے کو آئی تھی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھتے ہی فرمایا کہ تم اس لیے آئے ہو۔ پھر آپ نے وہ واقعہ بیان فرمایا۔ اس میں ہے کہ وہ ایک رومی نوجوان تھا اسی نے اسکندریہ بنایا۔ اسے ایک فرشتہ آسمان تک چڑھا لے گیا تھا اور دیوار تک لے گیا تھا اس نے کچھ لوگوں کو دیکھا جن کے منہ کتوں جیسے تھے وغیرہ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:23275:ضعیف] ‏‏‏‏ لیکن اس میں بہت طول ہے اور بے کار ہے اور ضعف ہے اس کا مرفوع ہونا ثابت نہیں۔ دراصل یہ بنی اسرائیل کی روایات ہیں۔ تعجب ہے کہ امام ابوزرعہ رازی جیسے علامہ زماں نے اسے اپنی کتاب دلائل نبوت میں مکمل وارد کیا ہے۔

فی الواقع یہ ان جیسے بزرگ سے تو تعجب خیز چیز ہی ہے۔ اس میں جو ہے کہ یہ رومی تھا، یہ بھی ٹھیک نہیں۔ اسکندر ثانی البتہ رومی تھا وہ فیلبس مقدونی کا لڑکا ہے جس سے روم کی تاریخ شروع ہوتی ہے اور سکندر اول تو بقول ازرقی وغیرہ ابراہیم علیہ السلام کے زمانے میں تھا۔ اس نے آپ کے ساتھ بیت اللہ شریف کی بنا کے بعد طواف بیت اللہ کیا ہے۔ آپ پر ایمان لایا تھا، آپ کا تابعدار بنا تھا، انہی کے وزیر خضر علیہ السلام تھے۔ اور سکندر ثانی کا وزیر ارسطا طالیس مشہور فلسفی تھا «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔ اسی نے مملکت روم کی تاریخ لکھی یہ میسح علیہ السلام سے تقریباً تین سو سال پہلے تھا۔ اور سکندر اول جس کا ذکر قرآن کریم میں ہے یہ ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے زمانے میں تھا جیسے کہ ازرقی وغیرہ نے ذکر کیا ہے۔ جب ابراہیم علیہ السلام نے بیت اللہ بنایا تو اس نے آپ علیہ السلام کے ساتھ طواف کیا تھا اور اللہ کے نام بہت سی قربانیاں کی تھیں۔ ہم نے اللہ کے فضل سے ان کے بہت سے واقعات اپنی کتاب البدایہ والنہایہ میں ذکر کر دیے ہیں۔

وہب بن منبہ رحمہ اللہ کہتے ہیں، یہ بادشاہ تھے چونکہ ان کے سر کے دونوں طرف تانبا رہتا تھا، اس لیے انہیں ذوالقرنین کہا گیا۔ یہ وجہ بھی بتلائی گئی ہے کہ یہ روم اور فارس دونوں کا بادشاہ تھا۔ بعض کا قول ہے کہ فی الواقع اس کے سر کے دونوں طرف کچھ سینگ سے تھے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں، اس نام کی وجہ یہ ہے کہ یہ اللہ کے نیک بندے تھے اپنی قوم کو اللہ کی طرف بلایا۔ یہ لوگ مخالف ہو گئے اور ان کے سر کے ایک جانب اس قدر مارا کہ یہ شہید ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں دوبارہ زندہ کر دیا، قوم نے پھر سر کے دوسری طرف اسی قدر مارا جس سے یہ پھر مر گئے اس لیے انہیں ذوالقرنین کہا جاتا ہے۔

ایک قول یہ بھی ہے کہ چونکہ یہ مشرق سے مغرب تک سیاحت کر آئے تھے اس لیے انہیں ذوالقرنین کہا گیا ہے۔ ہم نے اسے بڑی سلطنت دے رکھی تھی۔ ساتھ ہی قوت لشکر، آلات حرب سب کچھ ہی دے رکھا تھا۔ مشرق سے مغرب تک اس کی سلطنت تھی، عرب و عجم سب اس کے ماتحت تھے۔ ہرچیز کا اسے علم دے رکھا تھا۔ زمین کے ادنٰی و اعلیٰ نشانات بتلا دیے تھے۔ تمام زبانیں جانتے تھے۔ جس قوم سے لڑائی ہوتی، اس کی زبان بول لیتے تھے۔ ایک مرتبہ سیدنا کعب احبار رضی اللہ عنہما سے امیر معاویہ رضی اللہ عنہما نے فرمایا تھا، کیا تم کہتے ہو کہ ذوالقرنین نے اپنے گھوڑے ثریا سے باندھے تھے۔ انہوں نے جواب دیا کہ اگر آپ یہ فرماتے ہیں تو سنیے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے، ہم نے اسے ہرچیز کا سامان دیا تھا۔ حقیقت میں اس بات میں حق سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہما کے ساتھ ہے اس لیے بھی کہ حضرت کعب رحمہ اللہ کو جو کچھ کہیں لکھا ملتا تھا، روایت کر دیا کرتے تھے گو وہ جھوٹ ہی ہو۔ اسی لیے آپ نے فرمایا ہے کہ کعب کا کذب تو بار ہا سامنے آ چکا ہے یعنی خود تو جھوٹ نہیں گھڑتے تھے لیکن جو روایت ملتی گو بے سند ہو، بیان کرنے سے نہ چوکتے۔ اور یہ ظاہر ہے کہ بنی اسرائیل کی روایات جھوٹ، خرافات، تحریف، تبدیلی سے محفوظ نہ تھیں۔ بات یہ ہے کہ ہمیں ان اسرائیلی روایات کی طرف التفات کرنے کی بھی کیا ضرورت؟ جب کہ ہمارے ہاتھوں میں اللہ کی کتاب اور اس کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی اور صحیح احادیث موجود ہیں۔

افسوس! انہی بنی اسرائیلی روایات نے بہت سی برائی مسلمانوں میں ڈال دی اور بڑا فساد پھیل گیا۔ کعب رحمہ اللہ نے اس بنی اسرائیل کی روایت کے ثبوت میں قرآن کی اس آیت کا آخری حصہ جو پیش کیا ہے، یہ بھی کچھ ٹھیک نہیں کیونکہ یہ تو بالکل ظاہر بات ہے کہ کسی انسان کو اللہ تعالیٰ نے آسمانوں پر اور ثریا پر پہنچنے کی طاقت نہیں دی۔ دیکھئیے بلقیس کے حق میں بھی قرآن نے یہی الفاظ کہے ہیں «وَاُوْتِيَتْ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ» [ 27- النمل: 23 ] ‏‏‏‏ اسے ہرچیز دی گئی تھی۔ اس سے بھی مراد صرف اسی قدر ہے کہ بادشاہوں کے ہاں عموماً جو ہوتا ہے، وہ سب اس کے پاس بھی تھا۔ اسی طرح ذوالقرنین کو اللہ تعالیٰ نے تمام راستے اور ذرائع مہیا کر دیے تھے کہ وہ اپنی فتوحات کو وسعت دیتے جائیں اور زمین سرکشوں اور کافروں سے خالی کراتے جائیں اور اس کی توحید کے ساتھ موحدین کی بادشاہت دنیا پر پھیلائیں اور اللہ والوں کی حکومت جمائیں۔ ان کاموں میں جن اسباب کی ضرورت پڑتی ہے، وہ سب رب عزوجل نے ذوالقرنین کو دے رکھے تھے «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔

سیدنا علی رضی اللہ عنہما سے پوچھا جاتا ہے کہ یہ مشرق و مغرب تک کیسے پہنچ گئے؟ آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا سبحان اللہ۔ اللہ تعالیٰ نے بادلوں کو ان کے لیے مسخر کر دیا تھا اور تمام اسباب انہیں مہیا کر دیے تھے اور پوری قوت وطاقت دے دی تھی۔