مطلب یہ ہے کہ یہ بدباطن مسلمانوں کے پاس آ کر اپنی ایمان دوستی اور خیر خواہی ظاہر کر کے انہیں دھوکے میں ڈالنا چاہتے ہیں تاکہ مال و جان کا بچاؤ بھی ہو جائے، بھلائی اور غنیمت کے مال میں حصہ بھی قائم ہو جائے۔ اور جب اپنے والوں میں ہوتے ہیں تو ان ہی کی سی کہنے لگتے ہیں۔ «خَلَوْا» کے معنی یہاں ہیں «انْصَرَفُوا» «اذَهَبُوا» «خَلَصُوا» اور «مَضَوْا» یعنی لوٹتے ہیں اور پہنچتے ہیں اور تنہائی میں ہوتے ہیں اور جاتے ہیں پس «خَلَوْا» جو کہ «إِلَى» کے ساتھ متعدی ہے اس کے معنی لوٹ جانے کے ہیں۔ فعل مضمر اور ملفوظ دونوں پر یہ دلالت کرتا ہے۔ بعض کہتے ہیں «إِلَى» معنی میں «مَعَ» کے مترادف ہے مگر اول ہی ٹھیک ہے، ابن جریر رحمہ اللہ کے کلام کا خلاصہ بھی یہ ہے کہ شیاطین سے مراد «رؤسا» بڑے اور سردار ہیں جیسے یہود علماء اور سرداران کفار قریش و منافقین۔
سیدنا ابن عباس، سیدنا ابن مسعود اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کا قول ہے کہ یہ شیاطین ان کے امیر امراء اور سرداران کفر تھے اور ان کے ہم عقیدہ لوگ بھی۔ شیاطین یہود بھی انہیں پیغمبری کے جھٹلانے اور قرآن کی تکذیب کرنے کا مشورہ دیا کرتے تھے۔ مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں «شَيَاطِينِ» سے مراد ان کے وہ ساتھی ہیں جو یا تو مشرک تھے یا منافق۔
قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو برائیوں میں اور شرک میں ان کے سردار تھے۔ ابوالعالیہ، سدی، ربیع بن انس رحمہ اللہ علیہم بھی یہی تفسیر کرتے ہیں۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”ہر بہکانے اور سرکشی کرنے والے کو شیطان کہتے ہیں۔ جنوں میں سے ہو یا انسانوں میں سے۔ قرآن میں بھی «وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيَاطِينَ الْإِنسِ وَالْجِنِّ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا» [6-الأنعام:112] آیا ہے۔“
حدیث شریف میں ہے کہ ہم جنوں اور انسانوں کے شیطانوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں، ابوذر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: یا رسول اللہ! کیا انسان کے شیطان بھی ہیں؟ آپ نے فرمایا ”ہاں“ [سنن نسائی:5509،قال الشيخ الألباني:ضعيف الإسناد] جب یہ منافق مسلمانوں سے ملتے تو کہتے ہیں «قَالُوا إِنَّا مَعَكُمْ»”ہم تمہارے ساتھ ہیں“ یعنی جیسے تم ہو ویسے ہی ہم ہیں۔ اور اپنوں سے کہتے ہیں کہ ہم تو ان کے ساتھ ہنسی کھیل کرتے ہیں ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:300/1] سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما، ربیع بن انس رحمہ اللہ اور قتادہ رحمہ اللہ کی یہی تفسیر ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو جواب دیتے ہوئے ان کے اس مکروہ فعل کے مقابلہ میں فرماتا ہے: «يَوْمَ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ لِلَّذِينَ آمَنُوا انْظُرُونَا نَقْتَبِسْ مِنْ نُورِكُمْ قِيلَ ارْجِعُوا وَرَاءَكُمْ فَالْتَمِسُوا نُورًا فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُورٍ لَهُ بَابٌ بَاطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ وَظَاهِرُهُ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذَابُ» [57-الحديد:13] ”اللہ تعالیٰ بھی ان سے ٹھٹھا کرے گا اور انہیں ان کی سرکشی میں بہکنے دے گا جیسے دوسری جگہ ہے، کہ قیامت کے روز منافق مرد و عورت ایمان والوں سے کہیں گے ذرا ٹھہر جاؤ ہم بھی تمہارے نور سے فائدہ اٹھائیں، کہا جائے گا اپنے پیچھے لوٹ جاؤ اور نور کی تلاش کرو، اس کے لوٹتے ہی درمیان میں ایک اونچی دیوار حائل کر دی جائے گی جس میں دروازہ ہو گا، اس طرف تو رحمت ہو گی اور دوسری طرف عذاب ہو گا“۔ فرمان الٰہی ہے: «وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لِأَنْفُسِهِمْ إِنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدَادُوا إِثْمًا وَلَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ» [3-آل عمران:178] یعنی ”کافر لوگ ہماری دی ہوئی مہلت کو اپنے حق میں بہتر نہ سمجھیں، یہ مہلت تو اس لئے ہے کہ وه گناہوں میں اور بڑھ جائیں، ان ہی کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہے“ پس قرآن میں جہاں «اسْتِهْزَاءِ» «سُخْرِيَّتِهِ» مسخریت یعنی مذاق، «مَكْرِ»، «خَدِيعَتِ» یعنی دھوکہ کے الفاظ آئے ہیں وہاں یہی مراد ہے۔
ایک اور جماعت کہتی ہے کہ یہ الفاظ صرف ڈانٹ ڈپٹ اور تنبیہہ کے طور پر استعمال کئے گئے ہیں ان کی بدکرداریوں اور کفر و شرک پر انہیں ملامت کی گئی ہے۔ اور مفسرین کہتے ہیں یہ الفاظ صرف جواب میں لائے گئے ہیں جیسے کوئی بھلا آدمی کسی مکار کے فریب سے بچ کر اس پر غالب آ کر کہتا ہے کہو میں نے کیسا فریب دیا حالانکہ اس کی طرف سے فریب نہیں ہوتا۔ اسی طرح یہ فرمان الٰہی ہے کہ «وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّـهُ وَاللَّـهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ» [3-آل عمران:54] اور آیت «اَللّٰهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّھُمْ فِىْ طُغْيَانِهِمْ يَعْمَھُوْنَ» [2-البقرة:15] ورنہ اللہ کی ذات مکر اور مذاق سے پاک ہے، مطلب یہ ہے کہ ان کا فن فریب انہی کو برباد کرتا ہے۔ ان الفاظ کا یہ بھی مطلب بیان کیا گیا ہے کہ اللہ ان کی ہنسی، دھوکہ، تمسخر اور بھول کا ان کو بدلہ دے گا تو بدلے میں بھی وہی الفاظ استعمال کئے گئے دونوں لفظوں کے دونوں جگہ معنی جدا جدا ہیں۔ دیکھئیے قرآن کریم میں ہے: «وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا» [42-الشورى:40] یعنی ”برائی کا بدلہ ویسی ہی برائی ہے“، «فَمَنِ اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ» [2-البقرة:194] یعنی ”جو تم پر زیادتی کرے تم بھی اس پر زیادتی کرو“ تو ظاہر ہے کہ برائی کا بدلہ لینا حقیقتاً برائی نہیں۔ زیادتی کے مقابلہ میں بدلہ لینا زیادتی نہیں۔ لیکن لفظ دونوں جگہ ایک ہی ہے حالانکہ پہلی برائی اور زیادتی ”ظلم“ ہے اور دوسری برائی اور زیادتی ”عدل“ ہے لیکن لفظ دونوں جگہ ایک ہی ہے۔ اسی طرح جہاں جہاں کلام اللہ میں ایسی عبارتیں ہیں وہاں یہی مطلب ہے۔
ایک اور مطلب بھی سنیے دنیا میں یہ منافق اپنی اس ناپاک پالیسی سے مسلمانوں کے ساتھ مذاق کرتے تھے اللہ نے بھی ان کے ساتھ یہی کیا کہ دنیا میں انہیں امن و امان مل گیا اور یہ مست ہو گئے حالانکہ یہ عارضی امن ہے، قیامت والے دن انہیں کوئی امن نہیں ملے گا گو یہاں ان کے مال اور جانیں بچ گئیں لیکن اللہ کے ہاں یہ درد ناک عذاب کا شکار بنیں گے۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ نے اسی قول کو ترجیح دی ہے اور اس کی بہت تائید کی ہے اس لیے کہ مکر، دھوکہ اور مذاق جو بلاوجہ ہو اس سے تو اللہ کی ذات پاک ہے ہاں انتقام، مقابلے اور بدلے کے طور پر یہ الفاظ اللہ کی نسبت کہنے میں کوئی حرج نہیں۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بھی یہی فرماتے ہیں کہ یہ ان کا بدلہ اور سزا ہے۔
«يَمُدُّهُمْ» کا مطلب ڈھیل دینا اور بڑھانا بیان کیا گیا ہے ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:311/1]
جیسے فرمایا: «أَيَحْسَبُونَ أَنَّمَا نُمِدُّهُمْ بِهِ مِنْ مَالٍ وَبَنِينَ» [23-المؤمنون:55] ، «نُسَارِعُ لَهُمْ فِي الْخَيْرَاتِ بَلْ لَا يَشْعُرُونَ» [23-المؤمنون:56] یعنی ”کیا یہ یوں سمجھ بیٹھے ہیں کہ ان کے مال اور اولاد کی کثرت ان کے لیے باعث خیر ہے نہیں! نہیں! انہیں صحیح شعور ہی نہیں “۔
اور فرمایا: «سَنَسْـتَدْرِجُهُمْ مِّنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُوْنَ» [7-الأعراف:182] الخ یعنی ”اس طرح ہم انہیں آہستہ آہستہ پکڑیں گے کہ انہیں پتہ بھی نہ چلے“ غرض کہ ادھر یہ گناہ کرتے ہیں ادھر دنیوی نعمتیں زیادہ ہوتی ہیں جن پر یہ پھولے نہیں سماتے حالانکہ وہ حقیقت میں عذاب ہی کی ایک صورت ہوتی ہے۔
قرآن پاک نے اور جگہ فرمایا: «فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ أَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ حَتَّىٰ إِذَا فَرِحُوا بِمَا أُوتُوا أَخَذْنَاهُمْ بَغْتَةً فَإِذَا هُمْ مُبْلِسُونَ» [6-الأنعام:44] یعنی ”پھر جب وه لوگ ان چیزوں کو بھولے رہے جن کی ان کو نصیحت کی جاتی تھی تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کشاده کردئے یہاں تک کہ جب ان چیزوں پر جو کہ ان کو ملی تھیں وه خوب اترا گئے ہم نے ان کو دفعتاً پکڑ لیا، پھر تو وه بالکل مایوس ہو گئے“ «فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِينَ ظَلَمُوا وَالْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ»۱۰؎ [6-الأنعام:45] یعنی ”ظالموں کی بربادی ہوئی اور کہہ دیا گیا کہ تعریفیں رب العالمین کے لیے ہی ہیں“۔
ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ انہیں ڈھیل دینے اور انہیں اپنی سرکشی اور بغاوت میں بڑھنے کے لیے ان کو مہلت دی جاتی ہے۔ جیسے اور جگہ فرمایا «وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ وَأَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ يُؤْمِنُوا بِهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَنَذَرُهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ» [6-الأنعام:110] «طُّغْيَانُ» کہتے ہیں کسی چیز میں گھس جانے کو ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:307/1] جیسے فرمایا: «إِنَّا لَمَّا طَغَى الْمَاءُ حَمَلْنَاكُمْ فِي الْجَارِيَةِ» [69-الحاقة:11] سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں وہ اپنے کفر میں گرے جاتے ہیں۔ «عمہ» کہتے ہیں گمراہی کو۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ ضلالت و کفر میں ڈوب گئے اور اس ناپاکی نے انہیں گھیر لیا اب یہ اسی دلدل میں اترتے جاتے ہیں، اسی ناپاکی میں پھنسے جاتے ہیں اور اس سے نجات کی تمام راہیں ان پر بند ہو جاتی ہیں۔ بھلا ایسی دلدل میں جو ہو اور پھر اندھا بہرا اور بیوقوف ہو وہ کیسے نجات پا سکتا ہے۔ آنکھوں کے اندھے پن کے لیے عربی میں «عمی» کا لفظ آتا ہے اور دل کے اندھاپے کے لیے «عمہ» کا لیکن کبھی دل کے اندھے پن کے لیے بھی «عمی» کا لفظ آتا ہے جیسے قرآن میں ہے: «وَلٰكِنْ تَعْمَى الْقُلُوْبُ الَّتِيْ فِي الصُّدُوْرِ» [22-الحج:46] ۔