اللہ تعالیٰ اپنے نبی علیہ السلام کو اس مدت کی خبر دیتا ہے، جو اصحاب کہف نے اپنے سونے کے زمانے میں گزاری کہ وہ مدت سورج کے حساب سے تین سو سال کی تھی اور چاند کے حساب سے تین سو نو سال کی تھی۔ فی الواقع شمسی اور قمری سال میں سو سال پر تین سال کا فرق پڑتا ہے، اسی لیے تین سو الگ بیان کر کے پھر نو الگ بیان کئے۔
پھر فرماتا ہے کہ جب تجھ سے ان کے سونے کی مدت دریافت کی جائے اور تیرے پاس اس کا کچھ علم نہ ہو اور نہ اللہ نے تجھے واقف کیا ہو تو تو آگے نہ بڑھ اور ایسے امور میں یہ جواب دیا کر کہ اللہ ہی کوصحیح علم ہے، آسمان اور زمین کا غیب وہی جانتا ہے، ہاں جسے وہ جو بات بتا دے وہ جان لیتا ہے۔ حضرت قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ تین سو سال ٹھہرے تھے اور اللہ تعالیٰ نے اس کی تردید کی ہے اور فرمایا ہے اللہ ہی کو اس کا پورا علم ہے۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے بھی اسی معنی کی قرأت مروی ہے۔ لیکن حضرت قتادہ رحمہ اللہ کا یہ قول تامل طلب ہے اس لیے کہ اہل کتاب کے ہاں شمسی سال کا رواج ہے اور وہ تین سو سال مانتے ہیں۔ تین سو نو کا ان کا قول نہیں، اگر ان ہی کا قول نقل ہوتا تو پھر اللہ تعالیٰ یہ نہ فرماتا کہ اور نو سال زیادہ کئے۔ بظاہر تو یہی ٹھیک معلوم ہوتا ہے کہ خود اللہ تبارک و تعالیٰ اس بات کی خبر دے رہا ہے نہ کہ کسی کا قول بیان فرماتا ہے، یہی اختیار امام ابن جریر رحمہ اللہ کا ہے۔ حضرت قتادہ رحمہ اللہ کی روایت اور سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما کی قرأت دونوں منقطع ہیں۔ پھر شاذ بھی ہیں، جمہور کی قرأت وہی ہے جو قرآن میں ہے۔ پس وہ شاذ دلیل کے قابل نہیں۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو خوب دیکھ رہا ہے اور ان کی آواز کو خوب سن رہا ہے۔ ان الفاظ میں تعریف کا مبالغہ ہے، ان دونوں لفظوں میں مدح کا مبالغہ ہے یعنی وہ خوب دیکھنے سننے والا ہے۔ ہر موجود چیز کو دیکھ رہا ہے اور ہر آواز کو سن رہا ہے۔ کوئی کام کوئی کلام اس سے مخفی نہیں، کوئی اس سے زیادہ سننے دیکھنے والا نہیں۔ سب کے عمل دیکھ رہا ہے، سب کی باتیں سن رہا ہے، خلق کا خالق، امر کا مالک وہی ہے۔ کوئی اس کے فرمان کو رد نہیں کر سکتا۔ اس کا کوئی وزیر اور مددگار نہیں، نہ کوئی شریک اور مشیر ہے۔ وہ ان تمام کمیوں سے پاک ہے، تمام نقائص سے دور ہے۔