قرآن مجيد

سورة الكهف

تفسیر سورۃ الکہف:

اس سورت کی فضیلت کا بیان خصوصاً اس کی اول آخر کی دس آیتوں کی فضیلت کا بیان اور یہ کہ یہ سورت فتنہ دجال سے محفوظ رکھنے والی ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک صحابی نے اس کی تلاوت شروع کی، ان کے گھر میں ایک جانور تھا اس نے اچھلنا بدکنا شروع کر دیا، صحابی نے جو غور سے دیکھا تو انہیں سائبان کی طرح کا ایک بادل نظر پڑا جس نے ان پر سایہ کر رکھا تھا انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا، آپ نے فرمایا: پڑھتے رہو، یہ ہے وہ سکینہ جو اللہ کی طرف سے قرآن کی تلاوت پر نازل ہوتا ہے۔ [صحیح بخاری:3614] ‏‏‏‏ بخاری و مسلم میں بھی یہ روایت ہے یہ صحابی سیدنا اسید بن حضیر تھے، جیسے کہ سورۃ البقرہ کی تفسیر میں ہم بیان کر چکے ہیں۔

مسند احمد میں ہے کہ جس شخص نے سورہ کہف کے شروع کی دس آیتیں حفظ کر لیں وہ فتنہ دجال سے بچا لیا گیا۔ [صحیح مسلم:809] ‏‏‏‏

ترمذی میں تین آیتوں کا بیان ہے، مسلم میں آخری دس آیتوں کا ذکر ہے، نسائی میں دس آیتوں کو مطلق بیان کیا گیا ہے۔ [صحیح مسلم:809] ‏‏‏‏

مسند احمد میں ہے جو شخص اس سورۃ کہف کا اول آخر پڑھ لے اس کے لئے اس کے پاؤں سے سر تک نور ہو گا اور جو اس ساری سورت کو پڑھے اسے زمین سے آسمان تک کا نور ملے گا۔ [مسند احمد:439/3:ضعیف] ‏‏‏‏

ایک غریب سند سے ابن مردویہ میں ہے کہ جمعہ کے دن جو شخص سورۃ کہف پڑھ لے اس کے پیر کے تلوؤں سے لے کر آسمان کی بلندی تک کا نور ملے گا جو قیامت کے دن خوب روشن ہو گا اور دوسرے جمعہ تک کے اس کے سارے گناہ معاف ہو جائیں گے۔ [ابن مردويه:ضعیف جدا] ‏‏‏‏ اس حدیث کے مرفوع ہونے میں نظر ہے۔ زیادہ اچھا تو اس کا موقوف ہونا ہی ہے۔

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جس نے سورۃ کہف جمعہ کے دن پڑھ لی اس کے پاس سے لے کر بیت اللہ شریف تک نورانیت ہو جاتی ہے۔

مستدرک حاکم میں مرفوعا مروی ہے کہ جس نے سورۃ کہف جمعہ کے دن پڑھی اس کے لئے وہ جمعہ کے درمیان تک نور کی روشنی رہتی ہے۔ [مستدرک حاکم:368/2:قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏

بیہقی میں ہے کہ جس نے سورۃ کہف اسی طرح پڑھی جس طرح نازل ہوئی ہے اس کے لئے قیامت کے دن نور ہو گا۔ [مستدرک حاکم:564/1:قال الشيخ الألباني:موقوف] ‏‏‏‏

حافظ ضیاء مقدسی کی کتاب المختارہ میں ہے جو شخص جمعہ کے دن سورۃ کہف کی تلاوت کر لے گا وہ آٹھ دن تک ہر قسم کے فتنوں سے محفوظ رہے گا یہاں تک کہ اگر دجال بھی اس عرصہ میں نکلے تو وہ اس سے بھی بچا دیا جائے گا۔ [سلسلة احادیث ضعیفه البانی:2013:ضعیف] ‏‏‏‏
الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَى عَبْدِهِ الْكِتَابَ وَلَمْ يَجْعَلْ لَهُ عِوَجًا[1]
سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے اپنے بندے پر کتاب نازل کی اور اس میں کوئی کجی نہ رکھی۔[1]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 1، 2، 3،

مستحق تعریف قرآن مجید ٭٭

ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ اللہ ہر امر کے شروع اور اس کے خاتمے پر اپنی تعریف و حمد کرتا ہے۔ ہر حال میں وہ قابل حمد اور لائق ثنا اور سزاوار تعریف ہے، اول آخر مستحق حمد فقط اسی کی ذات والا صفات ہے۔ اس نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کریم نازل فرمایا جو اس کی بہت بڑی نعمت ہے، جس سے اللہ کے تمام بندے اندھیروں سے نکل کر نور کی طرف آ سکتے ہیں۔ اس نے اس کتاب کو ٹھیک ٹھاک اور سیدھا اور راست رکھا ہے جس میں کوئی کجی، کوئی کسر، کوئی کمی نہیں، صراط مستقیم کی رہبر، واضح جلی، صاف اور واضح ہے۔ بدکاروں کو ڈرانے والی، نیک کاروں کو خوشخبریاں سنانے والی، معتدل، سیدھی، مخالفوں منکروں کو خوفناک عذابوں کی خبر دینے والی یہ کتاب ہے، جو عذاب اللہ کی طرف سے ہیں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، ایسے عذاب کہ نہ اس کے سے عذاب کسی کے نہ اس کی سی پکڑ کسی کی۔ ہاں جو اس پر یقین کرے، ایمان لائے، نیک عمل کرے، اسے یہ کتاب اجر عظیم کی خوشی سناتی ہے۔

جس ثواب کو پائندگی اور دوام ہے، وہ جنت انہیں ملے گی جس میں کبھی فنا نہیں جس کی نعمتیں غیر فانی ہیں۔ اور انہیں بھی یہ عذابوں سے آگاہ کرتا ہے جو اللہ کی اولاد ٹھیراتے ہیں جیسے مشرکین مکہ کہ وہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں بتاتے تھے۔