قرآن مجيد

سورة الإسراء/بني اسرائيل
وَقُرْآنًا فَرَقْنَاهُ لِتَقْرَأَهُ عَلَى النَّاسِ عَلَى مُكْثٍ وَنَزَّلْنَاهُ تَنْزِيلًا[106]
اور عظیم قرآن، ہم نے اس کو جدا جدا کرکے (نازل) کیا، تاکہ تو اسے لوگوں پر ٹھہر ٹھہر کر پڑھے اور ہم نے اسے نازل کیا، (تھوڑا تھوڑا) نازل کرنا۔[106]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 105، 106،

قرآن کریم کی صفات عالیہ ٭٭

ارشاد ہے کہ «لَّـٰكِنِ اللَّـهُ يَشْهَدُ بِمَا أَنزَلَ إِلَيْكَ ۖ أَنزَلَهُ بِعِلْمِهِ وَالْمَلَائِكَةُ يَشْهَدُونَ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّـهِ شَهِيدًا» ‏‏‏‏ [4-النساء:166] ‏‏‏‏ ” قرآن حق کے ساتھ نازل ہوا، یہ سراسر حق ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کے ساتھ اسے نازل فرمایا ہے۔ اس کی حقانیت پر وہ خود شاہد ہے اور فرشتے بھی گواہ ہیں۔ “

اس میں وہی ہے جو اس نے خود اپنی دانست کے ساتھ اتارا ہے، اس کے تمام حکم احکام اور نہی و ممانعت اسی کی طرف سے ہے۔ حق والے نے حق کے ساتھ اسے اتارا اور یہ حق کے ساتھ ہی تجھ تک پہنچا، نہ راستے میں کوئی باطل اس میں ملا نہ باطل کی یہ شان کہ اس سے مخلوط ہو سکے۔

یہ بالکل محفوظ ہے، کمی زیادتی سے یکسر پاک ہے۔ پوری طاقت والے امانتدار فرشتے کی معرفت نازل ہوا ہے جو آسمانوں میں ذی عزت اور وہاں کا سردار ہے۔ تیرا کام مومنوں کو خوشی سنانا اور کافروں کو ڈرانا ہے۔ اس قرآن کو ہم نے لوح محفوظ سے بیت العزۃ پر نازل فرمایا جو آسمان اول میں ہے۔

وہاں سے متفرق تھوڑا تھوڑا کر کے واقعات کے مطابق تیئس برس میں دنیا پر نازل ہوا۔ «فَرَقْنَاهُ» کی دوسری قرأت «فَرَّقْنَاہُ» ہے یعنی ایک ایک آیت کر کے تفسیر اور تفصیل اور تبیین کے ساتھ اتارا ہے کہ تو اسے لوگوں کو بہ سہولت پہنچا دے اور آہستہ آہستہ انہیں سنا دے، ہم نے اسے تھوڑا تھوڑا کر کے نازل فرمایا ہے۔