قرآن مجيد

سورة الإسراء/بني اسرائيل
وَلَئِنْ شِئْنَا لَنَذْهَبَنَّ بِالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ بِهِ عَلَيْنَا وَكِيلًا[86]
اور یقینا اگر ہم چاہیں تو ضرور ہی وہ وحی (واپس) لے جائیں جو ہم نے تیری طرف بھیجی ہے، پھر تو اپنے لیے اس کے متعلق ہمارے مقابلے میں کوئی حمایتی نہیں پائے گا۔[86]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 86، 87، 88، 89،

قرآن اللہ تعالٰی کا احسان عظیم ٭٭

اللہ تعالیٰ اپنے زبردست احسان اور عظیم الشان نعمت کو بیان فرما رہا ہے جو اس نے اپنے حبیب محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر انعام کی ہے یعنی آپ پر وہ کتاب نازل فرمائی جس میں کہیں سے بھی کسی وقت باطل کی آمیزش ناممکن ہے۔ اگر وہ چاہے تو اس وحی کو سلب بھی کرسکتا ہے۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں آخر زمانے میں ایک سرخ ہوا چلے گی شام کی طرف سے یہ اٹھے گی اس وقت قرآن کے ورقوں میں سے اور حافظوں کے دلوں میں سے قرآن سلب ہو جائے گا، ایک حرف بھی باقی نہیں رہے گا، پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی۔

پھر اپنا فضل و کرم اور احسان بیان کرکے فرماتا ہے کہ اس قرآن کریم کی بزرگی ایک یہ بھی ہے کہ تمام مخلوق اس کے مقابلے سے عاجز ہے۔ کسی کے بس میں اس جیسا کلام نہیں، جس طرح اللہ تعالیٰ بے مثل بے نظیر بے شریک ہے اسی طرح اس کا کلام مثال سے نظیر سے اپنے جیسے سے پاک ہے۔

ابن اسحاق رحمہ اللہ نے وارد کیا ہے کہ یہودی آئے تھے اور انہوں نے کہا تھا کہ ہم بھی اسی جیسا کلام بنا لاتے ہیں پس یہ آیت اتری لیکن ہمیں اس کے ماننے میں تامل ہے، اس لیے کہ یہ سورت مکی ہے اور اس کا کل بیان قریشیوں سے ہے وہی مخاطب ہیں اور یہود کے ساتھ مکے میں آپ کا اجتماع نہیں ہوا مدینے میں ان سے میل ہوا «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔

ہم نے اس پاک کتاب میں ہر قسم کی دلیلیں بیان فرما کر حق کو واضح کر دیا ہے اور ہر بات کو شرح و بسط سے بیان فرما دیا ہے، باوجود اس کے بھی اکثر لوگ حق کی مخالفت کر رہے ہیں اور حق کو دھکے دے رہے ہیں اور اللہ کی ناشکری میں لگے ہوئے ہیں۔