قرآن مجيد

سورة البقرة
وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُودَاتٍ فَمَنْ تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ وَمَنْ تَأَخَّرَ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ لِمَنِ اتَّقَى وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ[203]
اور اللہ کو چند گنے ہوئے دنوں میں یاد کرو، پھر جو دو دنوں میں جلد چلا جائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں اور جو تاخیر کرے تو اس پر بھی کوئی گناہ نہیں، اس شخص کے لیے جو ڈرے اور اللہ سے ڈرو اور جان لو کہ تم اسی کی طرف اکٹھے کیے جائو گے۔[203]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 203،

ایام تشریق ٭٭

آیت میں «أَيَّامٍ مَّعْدُودَاتٍ» سے مراد ایام تشریق اور ایام معلومات سے مراد ذی الحجہ کے دس دن ہیں، [تفسیر قرطبی:3/3] ‏‏‏‏ ذکر اللہ سے مراد یہ ہے کہ ایام تشریق میں فرض نمازوں کے بعد اللہ اکبر اللہ اکبر کہیں۔ [تفسیر ابن ابی حاتم:545/2] ‏‏‏‏ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں عرفے کا دن قربانی کا دن اور ایام تشریق ہمارے یعنی اہل اسلام کی عید کے دن ہیں اور یہ دن کھانے پینے کے ہیں۔ [مسند احمد:152/4:صحیح] ‏‏‏‏ اور حدیث میں ہے ایام تشریق کھانے پینے اور اللہ کا ذکر کرنے کے ہیں۔ [مسند احمد:75/5:صحیح] ‏‏‏‏ پہلے یہ حدیث بھی بیان ہو چکی ہے کہ عرفات کل ٹھہرنے کی جگہ ہے اور ایام تشریق سب قربانی کے دن ہیں، اور یہ حدیث بھی پہلے گزر چکی ہے کہ منیٰ کے دن تین ہیں دو دن میں جلدی یا دیر کرنے والے پر کوئی گناہ نہیں، ابن جریر کی ایک حدیث میں ہے کہ ایام تشریق کھانے اور ذکر اللہ کرنے کے دن ہیں، [مسند احمد:229/2:صحیح] ‏‏‏‏ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہما کو بھیجا کہ وہ منیٰ میں گھوم کر منادی کر دیں کہ ان دنوں میں کوئی روزہ نہ رکھیں یہ دن کھانے پینے اور اللہ کا ذکر کرنے کے ہیں۔ [مسند احمد:513/2:صحیح] ‏‏‏‏

ایک اور مرسل روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ مگر جس پر قربانی کے بدلے روزے ہوں اس کے لیے یہ زائد نیکی ہے، [تفسیر ابن جریر الطبری:2918:صحیح بالشواھد] ‏‏‏‏ ایک اور روایت میں ہے کہ منادی سیدنا بشر بن سحیم رضی اللہ عنہ تھے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:3917:صحیح] ‏‏‏‏ اور حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دنوں کے روزوں کی ممانعت فرمائی ہے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:3916:صحیح] ‏‏‏‏

ایک روایت میں ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سفید خچر پر سوار ہو کر شعب انصار میں کھڑے ہو کر یہ حکم سنایا تھا، کہ لوگو یہ دن روزوں کے نہیں بلکہ کھانے پینے اور ذکر اللہ کرنے کے ہیں، [تفسیر ابن جریر الطبری:3919:صحیح] ‏‏‏‏ سیدنا ابن عباس فرماتے ہیں ایام معدودات ایام تشریق ہیں اور یہ چار دن ہیں دسویں ذی الحجہ کی اور تین دن اس کے بعد کے یعنی دس سے تیرہ تک، [تفسیر ابن جریر الطبری:547/2] ‏‏‏‏ سیدنا ابن عمر، ابن زبیر، ابوموسیٰ رضی اللہ عنہم، عطاء مجاہد، عکرمہ، سعید بن جبیر، ابو مالک، ابراہیم نخعی، یحییٰ بن ابی کثیر، حسن، قتادہ، سدی، زہری، ربیع بن انس، ضحاک، مقاتل بن حیان، عطاء خراسانی رحمہ اللہ علیہم، امام مالک رضی اللہ عنہ وغیرہ بھی یہی فرماتے ہیں، [تفسیر ابن ابی حاتم:547/2] ‏‏‏‏

سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں یہ تین دن ہیں دسویں گیارہویں اور بارہویں ان میں جب چاہو قربانی کرو لیکن افضل پہلا دن ہے مگر مشہور قول یہی ہے اور آیت کریمہ کے الفاظ کی ظاہری دلالت بھی اسی پر ہے کیونکہ دو دن میں جلدی یا دیر معاف ہے تو ثابت ہوا کہ عید کے بعد تین دن ہونے چاہئیں اور ان دنوں میں اللہ کا ذکر کرنا قربانیوں کے ذبح کے وقت ہے، اور یہ بھی پہلے بیان ہو چکا ہے کہ راجح مذہب اس میں امام شافعی رحمہ اللہ کا ہے کہ قربانی کا وقت عید کے دن سے ایام تشریق کے ختم ہونے تک ہے، اور اس سے مراد نمازوں کے بعد کا مقررہ ذکر بھی ہے اور ویسے عام طور پر یہی اللہ کا ذکر مراد ہے، اور اس کے مقررہ وقت میں گو علماء کرام کا اختلاف ہے لیکن زیادہ مشہور قول جس پر عمل درآمد بھی ہے یہ ہے کہ عرفے کی صبح سے ایام تشریق کے آخر دن کی عصر کی نماز تک، اس بارے میں ایک مرفوع حدیث بھی دارقطنی میں ہے لیکن اس کا مرفوع ہونا صحیح نہیں «وَاللهُ اَعْلَمُ»،

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اپنے خیمہ میں تکبیر کہتے اور آپ رضی اللہ عنہ کی تکبیر پر بازار والے لوگ تکبیر کہتے ہیں یہاں تک کہ منیٰ کا میدان گونج اٹھتا اسی طرح یہ مطلب بھی ہے کہ شیطانوں کو کنکریاں مارنے کے وقت تکبیر اور اللہ کا ذکر کیا جائے جو ایام تشریق کے ہر دن ہو گا، ابوداؤد وغیرہ میں حدیث ہے کہ بیت اللہ کا طواف صفا مروہ کی سعی شیطانوں کو کنکریاں مارنی یہ سب اللہ تعالیٰ کے ذکر کو قائم کرنے کے لیے ہے۔ [سنن ابوداود:1888، قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏ چونکہ اللہ تعالیٰ نے حج کی پہلی اور دوسری واپسی کا ذکر کیا اور اس کے بعد لوگ ان پاک مقامات کو چھوڑ کر اپنے اپنے شہروں اور مقامات کو لوٹ جائیں گے اس لیے ارشاد فرمایا کہ «وَهُوَ الَّذِي ذَرَأَكُمْ فِي الْأَرْضِ وَإِلَيْهِ تُحْشَرُونَ» [ 23-المؤمنون: 79 ] ‏‏‏‏ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو اور یقین رکھو کہ تمہیں اس کے سامنے جمع ہونا ہے اسی نے تمہیں زمین میں پھیلایا پھر وہی سمیٹ لے گا پھر اسی کی طرف حشر ہو گا۔ پس جہاں کہیں ہو اس سے ڈرتے رہا کرو۔