قرآن مجيد

سورة الإسراء/بني اسرائيل
قَالَ أَرَأَيْتَكَ هَذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ لَئِنْ أَخَّرْتَنِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَأَحْتَنِكَنَّ ذُرِّيَّتَهُ إِلَّا قَلِيلًا[62]
اس نے کہا کیا تونے دیکھا، یہ شخص جسے تو نے مجھ پر عزت بخشی، یقینا اگر تو مجھے قیامت کے دن تک مہلت دے تو میں بہت تھوڑے لوگوں کے سوا اس کی اولاد کو ہر صورت جڑ سے اکھاڑ دوں گا۔[62]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 61، 62،

ابلیس کی قدیمی دشمنی ٭٭

ابلیس کی قدیمی عداوت سے انسان کو آگاہ کیا جا رہا ہے کہ وہ تمہارے باپ آدم علیہ السلام کا کھلا دشمن تھا، اس کی اولاد برابر اسی طرح تمہاری دشمن ہے، سجدے کا حکم سن کر سب فرشتوں نے تو سر جھکا دیا لیکن اس نے تکبر جتایا، اسے حقیر سمجھا اور صاف انکار کر دیا کہ ناممکن ہے کہ میرا سر کسی مٹی سے بنے ہوئے کے سامنے جھکے، «أَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ خَلَقْتَنِي مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَهُ مِن طِينٍ» [7-الأعراف:12] ‏‏‏‏ ” میں اس سے کہیں افضل ہوں، میں آگ ہوں یہ خاک ہے۔ “

پھر اس کی ڈھٹائی دیکھیئے کہ اللہ جل و علی کے دربار میں گستاخانہ لہجے سے کہتا ہے کہ اچھا اسے اگر تو نے مجھ پر فضیلت دی تو کیا ہوا میں بھی اس کی اولاد کو برباد کر کے ہی چھوڑوں گا، سب کو اپنا تابعدار بنا لوں گا اور بہکا دوں گا، بس تھوڑے سے میرے پھندے سے چھوٹ جائیں گے، باقی سب کو غارت کر دوں گا۔