قرآن مجيد

سورة الإسراء/بني اسرائيل
أَوْ خَلْقًا مِمَّا يَكْبُرُ فِي صُدُورِكُمْ فَسَيَقُولُونَ مَنْ يُعِيدُنَا قُلِ الَّذِي فَطَرَكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ فَسَيُنْغِضُونَ إِلَيْكَ رُءُوسَهُمْ وَيَقُولُونَ مَتَى هُوَ قُلْ عَسَى أَنْ يَكُونَ قَرِيبًا[51]
یا کوئی ایسی مخلوق جو تمھارے سینوں میں بڑی (معلوم) ہو۔ تو عنقریب وہ کہیں گے کون ہمیں دوبارہ پیدا کرے گا؟ کہہ دے وہی جس نے تمھیں پہلی بار پیدا کیا، تو ضرور وہ تیری طرف اپنے سر تعجب سے ہلائیں گے اور کہیں گے یہ کب ہوگا؟ کہہ امید ہے کہ وہ قریب ہو۔[51]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 49، 50، 51، 52،

سب دوبارہ پیدا ہوں گے ٭٭

کافر جو قیامت کے قائل نہ تھے اور مرنے کے بعد کے جینے کو محال جانتے تھے وہ بطور انکار پوچھا کرتے تھے کہ کیا ہم جب ہڈی اور مٹی ہو جائیں گے، غبار بن جائیں گے، کچھ نہ رہیں گے بالکل مٹ جائیں گے۔ پھر بھی نئی پیدائش سے پیدا ہوں گے؟

سورۃ النازعات میں ان منکروں کا قول بیان ہوا ہے کہ «يَقُولُونَ أَإِنَّا لَمَرْدُودُونَ فِي الْحَافِرَةِ * أَإِذَا كُنَّا عِظَامًا نَّخِرَةً * قَالُوا تِلْكَ إِذًا كَرَّةٌ خَاسِرَةٌ» [79-النازعات:10-12] ‏‏‏‏ ” کیا ہم مرنے کے بعد الٹے پاؤں زندگی میں لوٹائے جائیں گے؟ اور وہ بھی ایسی حالت میں کہ ہماری ہڈیاں بھی گل سڑ گئی ہوں؟ بھئی یہ تو بڑے ہی خسارے کی بات ہے۔ “

سورۃ یاسین میں ہے کہ «وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَنَسِيَ خَلْقَهُ ۖ قَالَ مَن يُحْيِي الْعِظَامَ وَهِيَ رَمِيمٌ * قُلْ يُحْيِيهَا الَّذِي أَنشَأَهَا أَوَّلَ مَرَّةٍ ۖ وَهُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيمٌ» ‏‏‏‏ [36-يس:78-79] ‏‏‏‏ ” یہ ہمارے سامنے مثالیں بیان کرنے بیٹھ گیا اور اپنی پیدائش کو فراموش کر گیا۔ “ الخ۔

پس انہیں جواب دیا جاتا ہے کہ ہڈیاں تو کیا تم خواہ پتھر بن جاؤ خواہ لوہابن جاؤ۔ خواہ اس سے بھی زیادہ سخت چیز بن جاؤ مثلا پہاڑ یا زمین یا آسمان بلکہ تم خود موت ہی کیوں نہ بن جاؤ اللہ پر تمہارا جلانا مشکل نہیں، جو چاہو ہو جاؤ دوبارہ اٹھو گے ضرور۔

حدیث میں ہے کہ بھیڑیئے کی صورت میں موت کو قیامت کے دن جنت دوزخ کے درمیان لایا جاتا ہے اور دونوں سے کہا جائے گا کہ اسے پہچانتے ہو؟ سب کہیں گے ہاں، پھر اسے وہیں ذبح کر دیا جائے گا اور منادی ہو جائے گی کہ اے جنتیو اب دوام ہے موت نہیں اور اے جہنمیو اب ہمیشہ قیام ہے موت نہیں۔ [صحیح بخاری:4730] ‏‏‏‏

یہاں فرمان ہے کہ یہ پوچھتے ہیں کہ اچھا جب ہم ہڈیاں اور چورا ہو جائیں یا پتھر اور لوہا ہو جائیں گے یا جو ہم چاہیں اور جو بڑی سے بڑی سخت چیز ہو وہ ہم ہو جائیں تو یہ تو بتلاؤ کہ کس کے اختیار میں ہے کہ اب ہمیں پھر سے اس زندگی کی طرف لوٹا دے؟

ان کے اس سوال اور بیجا اعتراض کے جواب میں تو انہیں سمجھا کہ «وَهُوَ الَّذِي يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ» [30-الروم:27] ‏‏‏‏ ” تمہیں لوٹانے والا تمہارا سچا خالق اللہ تعالیٰ ہے۔ جس نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا ہے جب کہ تم کچھ نہ تھے۔ “

پھر اس پر دوسری بار کی پیدائش کیا گراں ہے؟ بلکہ بہت آسان ہے تم خواہ کچھ بھی بن جاؤ۔ یہ جواب چونکہ لا جواب ہے حیران تو ہو جائیں گے لیکن پھر بھی اپنی شرارت سے باز نہ آئیں گے، بد عقیدگی نہ چھوڑیں گے اور بطور مذاق سر ہلاتے ہوئے کہیں گے کہ «وَيَقُولُونَ مَتَىٰ هَـٰذَا الْوَعْدُ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ» [67-الملك:25] ‏‏‏‏ ” اچھا یہ ہو گا کب؟ سچے ہو تو وقت کا تعین کر دو۔ “

«يَسْتَعْجِلُ بِهَا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِهَا» [42-الشورى:18] ‏‏‏‏ ” بے ایمانوں کا یہ شیوہ ہے کہ وہ جلدی مچاتے رہتے ہیں۔ “

ہاں ہے تو وہ وقت قریب ہی، تم اس کے لیے انتظار کر لو، غلفت نہ برتو۔ اس کے آنے میں کوئی شک نہیں۔ آنے والی چیز کو آئی ہوئی سمجھا کرو۔ اللہ کی ایک آواز کے ساتھ ہی تم زمین سے نکل کھڑے ہو گے ایک آنکھ جھپکانے کی دیر بھی تو نہ لگے گی۔

اللہ کے فرمان کے ساتھ ہی تم سے میدان محشر پر ہو جائے گا۔ قبروں سے اٹھ کر اللہ کی تعریفیں کرتے ہوئے اس کے احکام کی بجا آوری میں کھڑے ہو جاؤ گے۔ حمد کے لائق وہی ہے تم اس کے حکم سے اور ارادے سے باہر نہیں ہو۔

حدیث میں ہے کہ «لا الہ الا اللہ» کہنے والوں پر ان کی قبر میں کوئی وحشت نہیں ہو گی۔ گویا کہ میں انہیں دیکھ رہا ہوں کہ وہ قبروں سے اٹھ رہے ہیں، اپنے سر سے مٹی جھاڑتے ہوئے۔ «‏‏‏‏لا الہ الا اللہ» کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوں گے۔ کہیں گے کہ اللہ کی حمد ہے جس نے ہم سے غم دور کر دیا۔ سورۃ فاطر کی تفسیر میں یہ بیان آ رہا ہے ان شاءاللہ۔

اس وقت تمہارا یقین ہو گا کہ تم بہت ہی کم مدت دنیا میں رہے گویا صبح یا شام، کوئی کہے گا دس دن، کوئی کہے گا ایک دن، کوئی سمجھے گا ایک ساعت ہی۔ سوال پر یہی کہیں گے کہ ایک دن یا دن کا کچھ حصہ ہی۔ اور اس پر قسمیں کھائیں گے۔ اسی طرح دنیا میں بھی اپنے جھوٹ پر قسمیں کھاتے رہے تھے۔