قرآن مجيد

سورة النحل
إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَالَّذِينَ هُمْ مُحْسِنُونَ[128]
بے شک اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو ڈر گئے اور ان لوگوں کے جو نیکی کرنے والے ہیں۔[128]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 126، 127، 128،

قصاص اور حصول قصاص ٭٭

قصاص میں اور حق کے حاصل کرنے میں برابری اور انصاف کا حکم ہو رہا ہے۔ امام ابن سیرین رحمہ اللہ وغیرہ فرماتے ہیں اگر کوئی تم سے کوئی چیز لے لے تو تم بھی اس سے اسی جیسی لے لو۔‏‏‏‏ ابن زید رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ پہلے تو مشرکوں سے درگزر کرنے کا حکم تھا۔ جب ذرا حیثیت دار لوگ مسلمان ہوئے تو انہوں نے کہا کہ اگر اللہ کی طرف سے بدلے کی رخصت ہو جائے تو ہم بھی ان کتوں سے نبڑ لیا کریں اس پر یہ آیت اتری آخر یہ بھی جہاد سے منسوخ ہو گئی۔‏‏‏‏

عطا بن یسار رحمہ اللہ فرماتے ہیں سورۃ النحل پوری مکے شریف میں اتری ہے مگر اس کی تین آخری آیتیں مدینے شریف میں اتری ہیں۔ جب کہ جنگ احد میں سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ شہید کر دئے گئے اور آپ رضی اللہ عنہ کے اعضائے جسم بھی شہادت کے بعد کاٹ لیے گئے جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے بے ساختہ نکل گیا کہ اب جب مجھے اللہ تعالیٰ ان مشرکوں پر غلبہ دے تو میں ان میں سے تیس شخصوں کے ہاتھ پاؤں اسی طرح کاٹوں گا ۔

مسلمانوں کے کان میں جب اپ نبی محترم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ پڑے تو ان کے جوش بہت بڑھ گئے اور کہنے لگے کہ واللہ ہم ان پر غالب آکر ان کی لاشوں کے وہ ٹکڑے ٹکڑے کریں گے کہ عربوں نے کبھی ایسا دیکھا ہی نہ ہوگا اس پر یہ آیتیں اتریں ۔ [دلائل النبوۃ للبیهقی:286/3:مرسل] ‏‏‏‏۔ لیکن یہ روایت مرسل ہے اور اس میں ایک راوی ایسا بھی ہے جن کا نام ہی نہیں لیا گیا، مبہم چھوڑا گیا۔ ہاں دوسری سند سے یہ متصل بھی مروی ہے۔

بزار میں ہے کہ جب سیدنا حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ شہید کر دئے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پاس کھڑے ہو کر دیکھنے لگے آہ! اس سے زیادہ دل دکھانے والا منظر اور کیا ہو گا کہ محترم چچا کی لاش کے ٹکڑے آنکھوں کے سامنے بکھرے پڑے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلا کہ آپ پر اللہ کی رحمت ہو، جہاں تک میرا علم ہے، میں جانتا ہوں کہ آپ رضی اللہ عنہ رشتے ناتے کے جوڑنے والے نیکیوں کو لپک کر کرنے والے تھے۔ واللہ دوسرے لوگوں کے درد و غم کا خیال نہ ہوتا تو میں تو آپ رضی اللہ عنہ کے اس جسم کو یونہی چھوڑ دیتا یہاں تک کہ آپ رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالیٰ درندوں کے پیٹوں میں سے نکالتا یا اور کوئی ایسا ہی کلمہ فرمایا: جب ان مشرکوں نے یہ حرکت کی ہے تو واللہ میں بھی ان میں کے ستر شخصوں کی یہی بری حالت بناؤں گا ۔ اسی وقت جبرائیل علیہ السلام وحی لے کر آئے اور یہ آیتیں آتری تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قسم کے پورا کرنے سے رک گئے اور قسم کا کفارہ ادا کر دیا ۔ [مسند بزار:1795:ضعیف] ‏‏‏‏ لیکن سند اس کی بھی کمزور ہے۔ اس کے راوی صالح بشیر مری ہیں جو ائمہ اہل حدیث کے نزدیک ضعیف ہیں بلکہ امام بخاری رحمہ اللہ تو انہیں منکر الحدیث کہتے ہیں۔

شعبی اور ابن جریج رحمہ اللہ علیہم کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی زبان سے نکلا تھا کہ ان لوگوں نے جو ہمارے شہیدوں کی بے حرمتی کی ہے اور ان کے اعضاء بدن کاٹ دئیے ہیں واللہ ہم بھی ان سے اس کا بدلہ لے کر ہی چھوڑیں گے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں یہ آیتیں اتاریں۔

مسند احمد میں ہے کہ جنگ احد میں ساٹھ انصاری شہید ہوئے اور چھ مہاجر رضی اللہ عنہم اجمعین تو اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے نکل گیا کہ جب ہم ان مشرکوں پر غلبہ پائیں تو ہم بھی ان کے ٹکڑے کئے بغیر نہ رہیں گے ۔

چنانچہ فتح مکہ والے دن ایک شخص نے کہا کہ آج کے دن کے بعد قریش پہچانے بھی نہ جائیں گے۔ اسی وقت ندا ہوئی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں کو پناہ دیتے ہیں سوائے فلاں فلاں کے (‏‏‏‏جن کے نام لیے گئے ہیں) اس پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت فرمایا کہ ہم صبر کرتے ہیں اور بدلہ نہیں لیتے ۔ [سنن ترمذي:3129،قال الشيخ الألباني:حسن] ‏‏‏‏

اس آیت کریمہ کی مثالیں قرآن کریم میں اور بھی بہت سی ہیں۔ اس میں عدل کی مشروعیت بیان ہوئی ہے اور افضل طریقے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ جیسے آیت «وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ» [42-الشورى:40] ‏‏‏‏ میں برائی کا بدلہ لینے کی رخصت عطا فرما کر پھر فرمایا ہے کہ جو در گزر کرلے اور اصلاح کر لے اس کا اجر اللہ تعالیٰ پر ہے “۔

اسی طرح آیت «وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ فَمَن تَصَدَّقَ بِهِ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَّهُ» [5-المائدہ:45] ‏‏‏‏ میں بھی زخموں کا بدلہ لینے کی اجازت دے کر فرمایا ہے کہ ” جو بطور صدقہ معاف کر دے یہ معافی اس کے گناہوں کا کفارہ ہو جائے گی “۔

اسی طرح اس آیت میں بھی برابر بدلہ لینے کے جواز کا ذکر فرما کر پھر ارشاد ہوا ہے کہ ” اگر صبر کر لو تو یہ بہت ہی بہتر ہے “۔ پھر صبر کی مزید تاکید کی اور ارشاد فرمایا کہ ” یہ ہر ایک کے بس کا کام نہیں یہ ان ہی سے ہو سکتا ہے جن کی مدد پر اللہ ہو اور جنہیں اس کی جانب سے توفیق نصیب ہوئی ہو “۔

پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ” اپنے مخالفین کا غم نہ کھا، ان کی قسمت میں ہی مخالفت لکھ دی گئی ہے نہ ان کے فن فریب سے آزردہ خاطر ہو۔ اللہ تجھے کافی ہے، وہی تیرا مددگار ہے، وہی تجھے ان سب پر غالب کرنے والا ہے اور ان کی مکاریوں اور چلاکیوں سے بچانے والا ہے۔ ان کی عداوت اور ان کے برے ارادے تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے “۔

ملائیکہ اور مجاہدین ٭٭

اللہ تعالیٰ کی مدد اور اس کی تائید ہدایات اور اس کی توفیق ان کے ساتھ ہے، جن کے دل اللہ کے ڈر سے اور جن کے اعمال احسان کے جوہر سے مال مال ہوں۔ چنانچہ جہاد کے موقعہ پر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی طرف وحی اتاری تھے کہ آیت «اَنِّىْ مَعَكُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا سَاُلْقِيْ فِيْ قُلُوْبِ الَّذِيْنَ كَفَرُوا الرُّعْبَ فَاضْرِبُوْا فَوْقَ الْاَعْنَاقِ وَاضْرِبُوْا مِنْهُمْ كُلَّ بَنَانٍ» [8-الأنفال:12] ‏‏‏‏ ” میں تمہارے ساتھ ہوں پس تم ایمانداروں کو ثابت قدم رکھو “۔

اسی طرح موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہما السلام سے فرمایا تھا آیت «لَا تَخَافَآ اِنَّنِيْ مَعَكُمَآ اَسْمَعُ وَاَرٰى» [20-طه:46] ‏‏‏‏ ” تم خوف نہ کھاؤ میں تمہارے ساتھ ہوں، دیکھتا سنتا ہوں “۔

غار میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا آیت «لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا» [9-التوبہ:40] ‏‏‏‏ ” غم نہ کرو اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے “۔ [صحیح بخاری:3652] ‏‏‏‏ پس یہ ساتھ تو خاص تھا۔ اور مراد اس سے تائید و نصرت الٰہی کا ساتھ ہونا ہے۔

اور عام ساتھ کا بیان آیت «وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ وَاللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ» [57-الحديد:4] ‏‏‏‏ اور آیت «أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّـهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ مَا يَكُونُ مِن نَّجْوَىٰ ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ إِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلَا أَدْنَىٰ مِن ذَٰلِكَ وَلَا أَكْثَرَ إِلَّا هُوَ مَعَهُمْ أَيْنَ مَا كَانُوا» [58-المجادلة:7] ‏‏‏‏ الخ اور آیت «وَمَا تَكُونُ فِي شَأْنٍ وَمَا تَتْلُو مِنْهُ مِن قُرْآنٍ وَلَا تَعْمَلُونَ مِنْ عَمَلٍ إِلَّا كُنَّا عَلَيْكُمْ شُهُودًا» [10-يونس:61] ‏‏‏‏ الخ میں ہے یعنی ” اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہے، جہاں بھی تم ہو اور وہ تمہارے اعمال دیکھنے والا ہے اور جو تین شخص کوئی سرگوشی کرنے لگیں ان میں چوتھا اللہ تعالیٰ ہوتا ہے اور پانچ میں چھٹا وہ ہوتا ہے اور اس سے کم و بیش میں بھی جہاں وہ ہوں، اللہ ان کے ساتھ ہوتا ہے اور تم کسی حال میں ہو یا تلاوت قرآن میں ہو یا تم اور کوئی کام میں لگے ہوئے ہو ہم تم پر شاہد ہوتے ہیں “۔

پس ان آیتوں میں ساتھ سے مراد سننے دیکھنے کا ساتھ ہے تقویٰ کے معنی ہیں حرام کاموں اور گناہ کے کاموں کو اللہ کے فرمان پر ترک کر دینے کے۔ اور احسان کے معنی ہیں پروردگار کی اطاعت و عبادت کو بجا لانا۔ جن لوگوں میں یہ دونوں صفتیں ہوں وہ اللہ تعالیٰ کی حفظ و امان میں رہتے ہیں، جناب باری ان کی تائید اور مدد فرماتا رہتا ہے۔ ان کے مخالفین اور دشمن ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے بلکہ اللہ تعالیٰ انہیں ان سب پر کامیابی عطا فرماتا ہے۔

ابن ابی حاتم میں محمد بن حاطب رحمہ اللہ سے مروی ہے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہا ان لوگوں میں سے تھے جو باایمان پرہیزگار اور نیک کار ہیں۔‏‏‏‏