قرآن مجيد

سورة النحل
وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَنَاتِ سُبْحَانَهُ وَلَهُمْ مَا يَشْتَهُونَ[57]
اور وہ اللہ کے لیے بیٹیاں تجویز کرتے ہیں، وہ پاک ہے اور اپنے لیے وہ جو وہ چاہتے ہیں۔[57]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 56، 57، 58، 59، 60،

بازپرس لازمی ہو گی ٭٭

مشرکوں کی بے عقلی اور بے ڈھنگی بیان ہو رہی ہے کہ «هَذَا لِلَّهِ بِزَعْمِهِمْ وَهَذَا لِشُرَكَائِنَا فَمَا كَانَ لِشُرَكَائِهِمْ فَلَا يَصِلُ إِلَى اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَمَا كَانَ لِلَّهِ فَهُوَ يَصِلُ إِلَى شُرَكَائِهِمْ» [6-الأنعام:136] ‏‏‏‏ ” دینے والا اللہ ہے سب کچھ اسی کا دیا ہوا اور یہ اس میں سے اپنے جھوٹے معبودوں کے نام ہو جائے جن کا صحیح علم بھی انہیں نہیں پھر اس میں سختی ایسی کریں کہ اللہ کے نام کا تو چاہے ان کے معبودوں کے ہو جائے لیکن ان کے معبودوں کے نام کیا گیا اللہ کے نام نہ ہو سکے “۔ ایسے لوگوں سے ضرور بازپرس ہوگی اور اس افترا کا بدلہ انہیں پورا پورا ملے گا۔ جہنم کی آگ ہوگی اور یہ ہوں گے۔

پھر ان کی دوسری بے انصافی اور حماقت بیان ہو رہی ہے کہ ” اللہ کے مقرب غلام فرشتے ان کے نزدیک اللہ کی بیٹیاں ہیں یہ خطا کرکے پھر ان کی عبادت کرتے ہیں جو خطا پر خطا ہے “۔

یہاں تین جرم ان سے سرزد ہوئے اول تو اللہ کے لیے اولاد ٹھہرانا جو اس سے یکسر پاک ہے، «أَلَكُمُ الذَّكَرُ وَلَهُ الْأُنْثَى تِلْكَ إِذًا قِسْمَةٌ ضِيزَى» [53-النجم:21-22] ‏‏‏‏ پھر اولاد میں سے بھی وہ قسم اسے دینا جسے خود اپنے لیے بھی پسند نہیں کرتے یعنی لڑکیاں۔ کیا ہی الٹی بات ہے کہ اپنے لیے اولاد ہو؟ پھر اولاد بھی وہ جو ان کے نزدیک نہایت ردی اور ذلیل چیز ہے۔

کیا حماقت ہے کہ انہیں تو اللہ لڑکے دے اور اپنے لیے لڑکیاں رکھے؟ اللہ اس سے بلکہ اولاد سے پاک ہے۔ انہیں جب خبر ملے کہ ان کے ہاں لڑکی ہوئی تو مارے ندامت و شرم کے منہ کالا پڑ جائے، زبان بند ہو جائے، غم سے کمر جھک جائے۔ زہر کے گھونٹ پی کر خاموش ہوجائے۔ لوگوں سے منہ چھپاتا پھرے۔ اسی سوچ میں رہے کہ اب کیا کروں اگر لڑکی کو زندہ چھوڑتا ہوں تو بڑی رسوائی ہے نہ وہ وارث بنے نہ کوئی چیز سمجھی جائے لڑکے کو اس پر ترجیح دی جائے غرض زندہ رکھے تو نہایت ذلت سے۔ ورنہ صاف بات ہے کہ جیتے جی گڑھا کھودا اور دبا دی۔

یہ حالت تو اپنی ہے پھر اللہ کے لیے یہی چیز ثابت کرتے ہیں۔ کیسے برے فیصلے کرتے ہیں؟ کتنی بے حیائی کی تقسیم کرتے ہیں اللہ کے لیے جو بیٹی ثابت کریں اسے اپنے لیے سخت تر باعث توہین و تذلیل سمجھیں۔ اصل یہ ہے کہ بری مثال اور نقصان انہی کافروں کے لیے ہے اللہ کے لیے کمال ہے۔ وہ عزیز و حکیم ہے اور ذوالجلال والاکرام ہے۔