بروں کے حالات بیان فرما کر نیکوں کے حالات جو ان کے بالکل برعکس ہیں، بیان فرما رہا ہے برے لوگوں کا جواب تو یہ تھا کہ اللہ کی اتاری ہوئی کتاب صرف گزرے لوگوں کے فسانے کی نقل ہے لیکن یہ نیک لوگ جواب دیتے ہیں کہ وہ سراسر برکت اور رحمت ہے جو بھی اسے مانے اور اس پر عمل کرے وہ برکت و رحمت سے مالا مال ہو جائے -
پھر خبر دیتا ہے کہ ” میں اپنے رسولوں سے وعدہ کر چکا ہوں کہ نیکوں کو دونوں جہان کی خوشی حاصل ہو گی “۔ جیسے فرمان ہے کہ «مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ» [16-النحل:97] ” جو شخص نیک عمل کرے، خواہ مرد ہو خواہ عورت۔ ہاں یہ ضروری ہے کہ وہ مومن ہو تو ہم اسے بڑی پاک زندگی عطا فرمائیں گے اور اس کے بہترین اعمال کا بدلہ بھی ضرور دیں گے، دونوں جہان میں وہ جزا پائے گا “۔
یاد رہے کہ دار آخرت، دار دنیا سے بہت ہی افضل و احسن ہے۔ وہاں کی جزا نہایت اعلیٰ اور دائمی ہے جیسے قارون کے مال کی تمنا کرنے والوں سے علماء کرام نے فرمایا تھا کہ «وَقَالَ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ وَيْلَكُمْ ثَوَابُ اللَّـهِ خَيْرٌ» [28-القصص:80] ” ثواب الٰہی بہتر ہے “، الخ۔
قرآن فرماتا ہے آیت «وَمَا عِندَ اللَّـهِ خَيْرٌ لِّلْأَبْرَارِ» [3-آل عمران:198] ” اللہ کے پاس کی چیزیں نیک کاروں کے لیے بہت اعلیٰ ہیں “۔ پھر فرماتا ہے «وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ وَأَبْقَىٰ» [87-الأعلى:17] ” دار آخرت متقیوں کے لیے بہت ہی اچھا ہے “۔
«جَنَّاتُ عَدْنٍ» بدل ہے «دَارُ الْمُتَّقِينَ» کا یعنی ان کے لیے آخرت میں جنت عدن ہے جہاں وہ رہیں گے جس کے درختوں اور محلوں کے نیچے سے برابر چشمے ہر وقت جاری ہیں، جو چاہیں گے پائیں گے۔ «وَفِيهَا مَا تَشْتَهِيهِ الْأَنْفُسُ وَتَلَذُّ الْأَعْيُنُ وَأَنْتُمْ فِيهَا خَالِدُونَ» [43-الزخرف:71] ” آنکھوں کی ہر ٹھنڈک موجود ہو گی اور وہ بھی ہمیشگی والی “۔
حدیث میں ہے اہل جنت بیٹھے ہوں گے، سر پر ابر اٹھے گا اور جو خواہش یہ کریں گے وہ ان کو عطا کرے گا یہاں تک کہ کوئی کہے گا اس کو ہم عمر کنواریاں ملیں تو یہ بھی ہوگا۔ پرہیزگار تقویٰ شعار لوگوں کے بدلے اللہ ایسے ہی دیتا ہے جو ایماندار ہوں، ڈرنے والے ہوں اور نیک عمل ہوں۔ ان کے انتقال کے وقت یہ شرک کی گندگی سے پاک ہوتے ہی فرشتے آتے ہیں، سلام کرتے ہیں، جنت کی خوشخبری سناتے ہیں ۔
جیسے فرمان عالی شان ہے آیت «إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ نُزُلًا مِنْ غَفُورٍ رَحِيمٍ» [41-فصلت:30-32] ” جن لوگوں نے اللہ کو رب مانا، پھر اس پر جمے رہے، ان کے پاس فرشتے آتے ہیں اور کہتے ہیں تم کوئی غم نہ کرو، جنت کی خوشخبری سنو، جس کا تم سے وعدہ تھا، ہم دنیا آخرت میں تمہارے والی ہیں، جو تم چاہو گے پاؤ گے جو مانگو گے ملے گا۔ تم تو اللہ غفور و رحیم کے مہمان ہو “۔
اس مضمون کی حدیثیں ہم آیت «يُثَبِّتُ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ» [14-ابراھیم:27] کی تفسیر میں بیان کر چکے ہیں۔