یقینا ان لوگوں نے تدبیریں کیں جو ان سے پہلے تھے تو اللہ ان کی عمارت کو بنیادوں سے آیا۔ پس ان پر ان کے اوپر سے چھت گر پڑی اور ان پر وہاں سے عذاب آیا کہ وہ سوچتے نہ تھے۔[26]
بعض تو کہتے ہیں اس مکار سے مراد نمرود ہے جس نے بالاخانہ تیار کیا تھا۔ سب سے پہلے سب سے بڑی سرکشی اسی نے زمین میں کی۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ہلاک کرنے کو ایک مچھر بھیجا جو اس کے نتھنے میں گھس گیا اور چار سو سال تک اس کا بھیجا چاٹتا رہا، اس مدت میں اسے اس وقت قدرے سکون معلوم ہوتا تھا جب اس کے سر پر ہتھوڑے مارے جائیں، خوب فساد پھیلایا تھا۔
بعض کہتے ہیں اس کے سر پر ہتھوڑے پڑتے رہتے تھے۔ اس نے چار سو سال تک سلطنت بھی کی تھی اور خوب فساد پھیلایا تھا۔ بعض کہتے ہیں اس سے مراد بخت نصر ہے یہ بھی بڑا مکار تھا لیکن اللہ کو کوئی کیا نقصان پہنچا سکتا ہے؟ «وَإِن كَانَ مَكْرُهُمْ لِتَزُولَ مِنْهُ الْجِبَالُ» [14-إبراھیم:46] ” گو اس کا مکر پہاڑوں کو بھی اپنی جگہ سے سرکا دینے والا ہو “۔
بعض کہتے ہیں یہ تو کافروں اور مشرکوں نے اللہ کے ساتھ جو غیروں کی عبادت کی ان کے عمل کی بربادی کی مثال ہے جیسے نوح علیہ السلام نے فرمایا تھا آیت «وَمَكَرُوا مَكْرًا كُبَّارًا» [71-نوح:22] ان ” کافروں نے بڑا ہی مکر کیا، ہر حیلے سے لوگوں کو گمراہ کیا، ہر وسیلے سے انہیں شرک پر آمادہ کیا “۔ چنانچہ ان کے چیلے قیامت کے دن ان سے کہیں گے «بَلْ مَكْرُ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ إِذْ تَأْمُرُونَنَا أَن نَّكْفُرَ بِاللَّـهِ وَنَجْعَلَ لَهُ أَندَادًا» [34-سبأ:33] کہ ” تمہارا رات دن کا مکر کہ ہم سے کفر و شرک کے لیے کہنا “، الخ۔
ان کی عمارت کی جڑ اور بنیاد سے عذاب الٰہی آیا یعنی بالکل ہی کھودیا اصل سے کاٹ دیا جیسے فرمان ہے «كُلَّمَا أَوْقَدُوا نَارًا لِّلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّـهُ» [5-المائدہ:64] ” جب لڑائی کی آگ بھڑکانا چاہتے ہیں اللہ تعالیٰ اسے بجھا دیتا ہے “۔
اور فرمان ہے کہ «فَأَتَاهُمُ اللَّـهُ مِنْ حَيْثُ لَمْ يَحْتَسِبُوا وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ يُخْرِبُونَ بُيُوتَهُم بِأَيْدِيهِمْ وَأَيْدِي الْمُؤْمِنِينَ فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الْأَبْصَارِ» [59-الحشر:2] ” ان کے پاس اللہ ایسی جگہ سے آیا جہاں کا انہیں خیال بھی نہ تھا، ان کے دلوں میں ایسا رعب ڈال دیا کہ یہ اپنے ہاتھوں اپنے مکانات تباہ کرنے لگے اور دوسری جانب سے مومنوں کے ہاتھوں مٹے، عقل مندو! عبرت حاصل کرو “۔
یہاں فرمایا کہ ” اللہ کا عذاب ان کی عمارت کی بنیاد سے آگیا اور ان پر اوپر سے چھت آ پڑی اور نا دانستہ جگہ سے ان پر عذاب اتر آیا۔ قیامت کے دن کی رسوائی اور فضیحت ابھی باقی ہے “۔ «يَوْمَ تُبْلَى السَّرَائِرُ» [86-الطارق:9] ” اس وقت چھپا ہوا سب کھل جائے گا، اندر کا سب باہر آ جائے گا۔ سارا معاملہ طشت ازبام ہو جائے گا “۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہر غدار کے لیے اس کے پاس ہی جھنڈا گاڑ دیا جائے گا جو اس کے غدر کے مطابق ہوگا اور مشہور کردیا جائے گا کہ فلاں کا یہ غدر ہے جو فلاں کا لڑکا تھا ۔ [صحیح بخاری:3186]
اسی طرح ان لوگوں کو بھی میدان محشر میں سب کے سامنے رسوا کیا جائے گا۔ ان سے ان کا پروردگار ڈانٹ ڈپٹ کر دریافت فرمائے گا کہ «مِن دُونِ اللَّـهِ هَلْ يَنصُرُونَكُمْ أَوْ يَنتَصِرُونَ» [26-الشعراء:93] ” جن کی حمایت میں تم میرے بندوں سے الجھتے رہتے تھے وہ آج کہاں ہیں؟ تمہاری مدد کیوں نہیں کرتے؟ آج بے یار و مددگار کیوں ہو؟ “
یہ چپ ہو جائیں گے، کیا جواب دیں؟ لاچار ہو جائیں گے، کون سی جھوٹی دلیل پیش کریں؟ اور آیت میں ہے «فَمَا لَهُ مِن قُوَّةٍ وَلَا نَاصِرٍ» [86-الطارق:10] ” اُس وقت انسان کے پاس نہ خود اپنا کوئی زور ہو گا اور نہ کوئی اس کی مدد کرنے والا ہوگا “۔
اس وقت علماء کرام جو دنیا اور آخرت میں اللہ کے اور مخلوق کے پاس عزت رکھتے ہیں جواب دیں گے کہ رسوائی اور عذاب آج کافروں کو گھیرے ہوئے ہیں اور ان کے معبودان باطل ان سے منہ پھیرے ہوئے ہیں۔