قرآن مجيد

سورة النحل
يُنْبِتُ لَكُمْ بِهِ الزَّرْعَ وَالزَّيْتُونَ وَالنَّخِيلَ وَالْأَعْنَابَ وَمِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ[11]
وہ تمھارے لیے اس کے ساتھ کھیتی اور زیتون اور کھجور اور انگور اور ہر قسم کے پھل اگاتا ہے۔ بے شک اس میں ان لوگوں کے لیے یقینا بڑی نشانی ہے جو غور و فکر کرتے ہیں۔[11]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 10، 11،

تمہارے فائدوں کے سامان ٭٭

چوپائے اور دوسرے جانوروں کی پیدائش کا احسان بیان فرما کر مزید احسانوں کا ذکر فرماتا ہے کہ ” اوپر سے پانی وہی برساتا ہے جس سے تم فائدہ اٹھاتے ہو اور تمہارے فائدے کے جانور بھی اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں میٹھا صاف شفاف خوش گوار اچھے ذائقے کا پانی تمہارے پینے کے کام آتا ہے اس کا احسان نہ ہو تو وہ کھاری اور کڑوا بنادے اسی آب باراں سے درخت اگتے ہیں اور وہ درخت تمہارے جانوروں کا چارہ بنتے ہیں “۔ «سَّوْمُ» کے معنی چرنے کے ہیں۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:566/7:] ‏‏‏‏۔ اسی وجہ سے اہل سائمہ چرنے والے اونٹوں کو کہتے ہیں۔

ابن ماجہ کی حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج نکلنے سے پہلے چرانے کو منع فرمایا ۔ [سنن ابن ماجه:2606،قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏

پھر اس کی قدرت دیکھو کہ ایک ہی پانی سے مختلف مزے کے، مختلف شکل و صورت کے، مختلف خوشبو کے طرح طرح کے پھل پھول وہ تمہارے لیے پیدا کرتا ہے۔ پس یہ سب نشانیاں ایک شخص کو اللہ کی وحدانیت جاننے کے لیے کافی ہیں اسی کا بیان اور آیتوں میں اس طرح ہوا ہے کہ «أَمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَأَنْزَلَ لَكُمْ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَنْبَتْنَا بِهِ حَدَائِقَ ذَاتَ بَهْجَةٍ مَا كَانَ لَكُمْ أَنْ تُنْبِتُوا شَجَرَهَا أَإِلَهٌ مَعَ اللَّهِ بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ» [27-النمل:60] ‏‏‏‏ ” آسمان و زمین کا خالق، بادلوں سے پانی برسانے والا، ان سے ہرے بھرے باغات پیدا کرنے والا، جن کے پیدا کرنے سے تم عاجز تھے اللہ ہی ہے اس کے ساتھ اور کوئی معبود نہیں پھر بھی لوگ حق سے ادھر ادھر ہورہے ہیں “۔