قرآن مجيد

سورة البقرة
فَمَنْ خَافَ مِنْ مُوصٍ جَنَفًا أَوْ إِثْمًا فَأَصْلَحَ بَيْنَهُمْ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ[182]
پھر جو شخص کسی وصیت کرنے والے سے کسی قسم کی طرف داری یا گناہ سے ڈرے، پس ان کے درمیان اصلاح کر دے تو اس پر کوئی گناہ نہیں، یقینا اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔[182]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 180، 181، 182،

وصیت کی وضاحت ٭٭

اس آیت میں ماں باپ اور قرابت داروں کے لیے وصیت کرنے کا حکم ہو رہا ہے، میراث کے حکم سے پہلے یہ واجب تھا ٹھیک قول یہی ہے، لیکن میراث کے احکام نے اس وصیت کے حکم کو منسوخ کر دیا، ہر وارث اپنا مقررہ حصہ بy وصیت لے لے گا، سنن وغیرہ میں عمرو بن خارجہ رضی اللہ عنہ سے حدیث ہے کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطبہ میں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر حقدار کو اس کا حق پہنچا دیا ہے اب کسی وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں، [سنن ترمذي:2121، قال الشيخ الألباني:حسن] ‏‏‏‏ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سورۃ البقرہ کی تلاوت کرتے ہیں جب آپ رضی اللہ عنہ اس آیت پر پہنچتے ہیں تو فرماتے ہیں یہ آیت منسوخ ہے [ حاکم:273/2] ‏‏‏‏ ] ‏‏‏‏ آپ سے یہ بھی مروی ہے کہ پہلے ماں باپ کے ساتھ اور کوئی رشتہ دار وارث نہ تھا اوروں کے لیے صرف وصیت ہوتی تھی پھر میراث کی آیتیں نازل ہوئیں اور ایک تہائی مال میں وصیت کا اختیار باقی رہا۔ اس آیت کے حکم کو منسوخ کرنے والی آیت «لِلرِّجَالِ نَصِيْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ ۠ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ اَوْ كَثُرَ نَصِيْبًا مَّفْرُوْضًا» [ 4۔ النسآء: 7 ] ‏‏‏‏ ہے۔

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سعید بن مسیب رحمہ اللہ، حسن، مجاہد، عطاء، سعید بن جبیر، محمد بن سیرین، [تفسیر ابن ابی حاتم:302/1] ‏‏‏‏ عکرمہ، [تفسیر ابن جریر الطبری:391/3] ‏‏‏‏ زید بن اسلم، ربیع بن انس، قتادہ، سدی، مقاتل بن حیان، طاؤس، ابراہیم نخعی، شریح، ضحاک اور زہری رحمہم اللہ یہ سب حضرات بھی اس آیت کو منسوخ بتاتے ہیں، لیکن باوجود اس کے تعجب ہے کہ امام رازی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر کبیر میں ابو مسلم اصفہانی سے یہ کیسے نقل کر دیا کہ یہ آیت منسوخ نہیں بلکہ آیت میراث اس کی تفسیر ہے اور مطلب آیت کا یہ ہے کہ تم پر وہ وصیت فرض کی گئی جس کا بیان آیت «يُوْصِيْكُمُ اللّٰهُ فِيْٓ اَوْلَادِكُمْ ۤ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ» [ 4۔ النسآء: 11 ] ‏‏‏‏ میں ہے اور یہی قول اکثر مفسرین اور معتبر فقہاء کا ہے۔

بعض کہتے ہیں کہ وصیت کا حکم وارثوں کے حق میں منسوخ ہے اور جن کا ورثہ مقرر نہیں ان کے حق میں ثابت ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما حسن، مسروق، طاؤس، ضحاک، مسلم بن یسار اور علاء بن زیاد رحمہ اللہ علیہم کا مذہب بھی یہی ہے، میں کہتا ہوں سعید بن جبیر، ربیع بن انس، قتادہ اور مقاتل بن حیان رحمہ اللہ علیہم بھی یہی کہتے ہیں لیکن ان حضرات کے اس قول کی بنا پر پہلے فقہاء کی اصطلاح میں یہ آیت منسوخ نہیں ٹھہرتی اس لیے کہ میراث کی آیت سے وہ لوگ تو اس حکم سے مخصوص ہو گئے جن کا حصہ شریعت نے خود مقرر کر دیا اور جو اس سے پہلے اس آیت کے حکم کی رو سے وصیت میں داخل تھے کیونکہ قرابت دار عام ہیں خواہ ان کا ورثہ مقرر ہو یا نہ ہو تو اب وصیت ان کے لیے ہوئی جو وارث نہیں اور ان کے حق میں نہ رہی جو وارث ہیں،

یہ قول اور بعض دیگر حضرات کا یہ قول کہ وصیت کا حکم ابتداء اسلام میں تھا اور وہ بھی غیر ضروری، دونوں کا مطلب قریباً ایک ہو گیا، لیکن جو لوگ وصیت کے اس حکم کو واجب کہتے ہیں اور روانی عبارت اور سیاق و سباق سے بھی بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے ان کے نزدیک تو یہ آیت منسوخ ہی ٹھہرے گی جیسے کہ اکثر مفسرین اور معتبر فقہاء کرام کا قول ہے۔

پس والدین اور وراثت پانے والے قرابت داروں کے لیے وصیت کرنا بالاجماع منسوخ ہے بلکہ ممنوع ہے حدیث شریف میں آ چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر حقدار کو اس کا حق دے دیا ہے اب وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں، آیت میراث کا حکم مستقل ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ واجب و فرض ہے ذوی الفروض اور عصبات کا حصہ مقرر ہے اور اس سے اس آیت کا حکم کلیتًہ اٹھ گیا، باقی رہے وہ قرابت دار جن کا کوئی ورثہ مقرر نہیں ان کے لیے تہائی مال میں وصیت کرانا مستحب ہے کچھ تو اس کا حکم اس آیت سے بھی نکلتا ہے دوسرے یہ کہ حدیث شریف میں صاف آ چکا ہے بخاری و مسلم میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کسی مرد مسلمان کو لائق نہیں کہ اس کے پاس کوئی چیز ہو اور وہ وصیت کرنی چاہتا ہو تو دو راتیں بھی بغیر وصیت لکھے ہوئے گزارے راوی حدیث سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہما کے صاحبزادے فرماتے ہیں کہ اس فرمان کے سننے کے بعد میں نے تو ایک رات بھی بلا وصیت نہیں گزاری، [صحیح بخاری:2738] ‏‏‏‏

قرابت داروں اور رشتہ داروں سے سلوک و احسان کرنے کے بارے میں بہت سی آیتیں اور حدیثیں آئی ہیں، ایک حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے ابن آدم تو جو مال میری راہ میں خرچ کرے گا میں اس کی وجہ سے تجھے پاک صاف کروں گا اور تیرے انتقال کے بعد بھی میرے نیک بندوں کی دعاؤں کا سبب بناؤں گا ۔ [دار قطنی 148/4:ضعیف] ‏‏‏‏

خیرا سے مراد یہاں مال ہے اکثر جلیل القدر مفسرین کی یہی تفسیر ہے بعض مفسرین کا تو قول ہے کہ مال خواہ تھوڑا ہو خواہ بہت وصیت مشروع ہے جیسے میراث تھوڑے مال میں بھی ہے اور زیادہ میں بھی، بعض کہتے ہیں وصیت کا حکم اس وقت ہے جب زیادہ مال ہو، سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک قریشی مر گیا ہے اور تین چار سو دینار اس کے ورثہ میں تھے اور اس نے وصیت کچھ نہیں کی آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ رقم وصیت کے قابل نہیں اللہ تعالیٰ نے آیت «إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ» [ البقرہ: 180 ] ‏‏‏‏ میں فرمایا ہے، ایک اور روایت میں ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اپنی قوم کے ایک بیمار کی بیمار پرسی کو گئے اس سے کسی نے کہا وصیت کرو تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا وصیت خیر میں ہوتی ہے اور تو تو کم مال چھوڑ رہا ہے اسے اولاد کے لیے ہی چھوڑ جا، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ساٹھ دینار جس نے نہیں چھوڑے اس نے خیر نہیں چھوڑی یعنی اس کے ذمہ وصیت کرنا نہیں، طاؤس رحمہ اللہ، اسی دینار بتاتے ہیں قتادہ رحمہ اللہ ایک ہزار بتاتے ہیں۔

معروف سے مراد نرمی اور احسان ہے۔ حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں وصیت کرنا ہر مسلمان پر ضروری ہے اس میں بھلائی کرے برائی نہ کرے وارثوں کو نقصان نہ پہنچائے اسراف اور فضول خرچی نہ کرے۔

بخاری و مسلم میں ہے کہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں مالدار ہوں اور میری وارث صرف میری ایک لڑکی ہی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اجازت دیجئیے کہ میں اپنے دو تہائی مال کی وصیت کروں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں کہا آدھے کی اجازت دیجئیے فرمایا نہیں کہا ایک تہائی کی اجازت دیجئیے فرمایا خیر تہائی مال کی وصیت کرو گو یہ بھی بہت ہے تم اپنے پیچھے اپنے وارثوں کو مالدار چھوڑ کر جاؤ یہ بہتر ہے اس سے کہ تم انہیں فقیر اور تنگ دست چھوڑ کر جاؤ کہ وہ اوروں کے سامنے ہاتھ پھیلائیں، [صحیح بخاری:6733] ‏‏‏‏

صحیح بخاری شریف میں ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کاش کہ لوگ تہائی سے ہٹ کر چوتھائی پر آ جائیں اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تہائی کی رخصت دیتے ہوئے یہ بھی فرمایا ہے کہ تہائی بہت ہے۔ [صحیح بخاری:2742] ‏‏‏‏

مسند احمد میں ہے حنظلہ بن جذیم بن حنفیہ کے دادا حنفیہ نے ایک یتیم بچے کے لیے جو ان کے ہاں پلتے تھے سو اونٹوں کی وصیت کی ان کی اولاد پر یہ بہت گراں گزرا معاملہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں نہیں نہیں صدقہ میں پانچ دو ورنہ دس دو ورنہ پندرہ ورنہ بیس ورنہ پچیس دو ورنہ تیس دو ورنہ پینتیس دو اگر اس پر بھی نہ مانوں تو خیر زیادہ سے زیادہ چالیس دو۔ [مسند احمد:67/5:حسن] ‏‏‏‏ پھر فرمایا جو شخص وصیت کو بدل دے اس میں کمی بیشی کر دے یا وصیت کو چھپالے اس کا گناہ بدلنے والے کے ذمہ ہے میت کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ ثابت ہو گیا، اللہ تعالیٰ وصیت کرنے والے کی وصیت کی اصلیت کو بھی جانتا ہے اور بدلنے والے کی تبدیلی کو بھی نہ اس سے کوئی آواز پوشیدہ نہ کوئی راز۔ حیف کے معنی خطا اور غلطی کے ہیں. [تفسیر ابن ابی حاتم:210-211] ‏‏‏‏ مثلا کسی وارث کو کسی طرح زیادہ دلوا دینا مثلا کہہ دیا کہ فلاں چیز فلاں کے ہاتھ اتنے اتنے میں بیچ دی جائے وغیرہ اب یہ خواہ بطور غلطی اور خطا کے ہو یا زیادتی محبت و شفقت کی وجہ سے بغیر قصد ایسی حرکت سرزد ہو گئی ہو یا گناہ کے طور پر ہو تو وصی کو اس کے رد و بدل میں کوئی گناہ نہیں۔ وصیت کو شرعی احکام کے مطابق پوری ہو ایسی حالت میں بدلنے والے پر کوئی گناہ یا حرج نہیں «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔ ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں زندگی میں ظلم کر کے صدقہ دینے والے کا صدقہ اسی طرح لوٹا دیا جائے گا جس طرح موت کے وقت گناہگار کرنے والے کا صدقہ لوٹا دیا جاتا ہے یہ حدیث ابن مردویہ میں بھی مروی ہے۔

ابن ابی حاتم فرماتے ہیں ولید بن یزید جو اس حدیث کا راوی ہے اس نے اس میں غلطی کی ہے دراصل یہ کلام عروہ رحمہ اللہ کا ہے، ولید بن مسلم نے اسے اوزاعی رحمہ اللہ سے روایت کیا ہے اور عروہ رحمہ اللہ سے آگے سند نہیں لے گئے۔

امام ابن مردویہ بھی ایک مرفوع حدیث بروایت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وصیت کی کمی بیشی کبیرہ گناہ ہے ۔ [دار قطنی:151/4:موقوف صحیح] ‏‏‏‏ لیکن اس حدیث کے مرفوع ہونے میں بھی کلام ہے اس بارے میں سب سے اچھی وہ حدیث ہے جو مسند عبدالرزاق میں بروایت سیدنا ابوہریرہ مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آدمی نیک لوگوں کے اعمال ستر سال تک کرتا رہتا ہے اور وصیت میں ظلم کرتا ہے اور برائی کے عمل پر خاتمہ ہونے کی وجہ سے جہنمی بن جاتا ہے اور بعض لوگ ستر برس تک بد اعمالیاں کرتے رہتے ہیں لیکن وصیت میں عدل وانصاف کرتے ہیں اور آخری عمل ان کا بھلا ہوتا ہے اور وہ جنتی بن جاتے ہیں، [سنن ابوداود:2867، قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏ پھر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر چاہو تو قرآن پاک کی اس آیت کو پڑھ آیت «تِلْكَ حُدُودُ اللَّـهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّـهِ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ» [ البقرہ: 229 ] ‏‏‏‏ یعنی یہ اللہ تعالیٰ کی حدیں ہیں ان سے آگے نہ بڑھو۔