قرآن مجيد

سورة الحجر
قَالَ هَذَا صِرَاطٌ عَلَيَّ مُسْتَقِيمٌ[41]
فرمایا یہ راستہ ہے جو مجھ تک سیدھا ہے۔[41]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 39، 40، 41، 42،

ابلیس کے سیاہ کارنامے ٭٭

ابلیس کی سرکشی بیان ہو رہی ہے کہ اس نے اللہ کے گمراہ کرنے کی قسم کھا کر کہا، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس نے کہا کہ چونکہ تو نے مجھے گمراہ کیا میں بھی اولاد آدم کے لیے زمین میں تیری نافرمانیوں کو خوب زینت دار کر کے دکھاؤں گا۔ اور انہیں رغبت دلا دلا کر نافرمانیوں میں مبتلا کروں گا، جہاں تک ہو سکے گا کوشش کروں گا کہ سب کو ہی بہکا دوں۔ لیکن ہاں تیرے خالص بندے میرے ہاتھ نہیں آ سکتے۔

ایک اور آیت میں بھی ہے کہ «أَرَأَيْتَكَ هَـٰذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ لَئِنْ أَخَّرْتَنِ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَأَحْتَنِكَنَّ ذُرِّيَّتَهُ إِلَّا قَلِيلًا» [17-الاسراء:62] ‏‏‏‏ ” گو تو نے اسے مجھ پر برتری دی ہے لیکن اب میں بھی اس کی اولاد کے پیچھے پڑ جاؤں گا، چاہے کچھ تھوڑے سے چھوٹ جائیں باقی سب کو ہی لے ڈوبوں گا “۔

اس پر جواب ملا کہ ” تم سب کا لوٹنا تو میری ہی طرف ہے۔ اعمال کا بدلہ میں ضرور دوں گا نیک کو نیک بد کو بد “۔ جیسے فرمان ہے کہ «إِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصَادِ» [89-الفجر:14] ‏‏‏‏ ” تیرا رب تاک میں ہے “۔

اور آیت میں ہے «وَعَلَى اللَّـهِ قَصْدُ السَّبِيلِ» [16-النحل:9] ‏‏‏‏ ” اور اللہ پر سیدھی راه کا بتا دینا ہے “، غرض لوٹنا اور اور لوٹنے کا راستہ اللہ ہی کی طرف ہے۔

«عَلَيَّ» کی ایک قرأت «عَلِيٌّ» بھی ہے۔ جیسے آیت «وَإِنَّهُ فِي أُمِّ الْكِتَابِ لَدَيْنَا لَعَلِيٌّ حَكِيمٌ» [43-الزخرف:4] ‏‏‏‏ میں ہے یعنی بلند لیکن پہلی قرأت مشہور ہے۔

” جن بندوں کو میں نے ہدایت پر لگا دیا ہے ان پر تیرا کوئی زور نہیں ہاں تیرا زور تیرے تابعداروں پر ہے “۔ یہ استثناء منقطع ہے۔

ابن جریر میں ہے کہ بستیوں سے باہر نبیوں کی مسجدیں ہوتی تھیں۔ جب وہ اپنے رب سے کوئی خاص بات معلوم کرنا چاہتے تو وہاں جا کر جو نماز مقدر میں ہوتی ادا کرکے سوال کرتے۔ ایک دن ایک نبی علیہ السلام کے اور اس کے قبلہ کے درمیان شیطان بیٹھ گیا۔ اس نبی علیہ السلام نے تین بار کہا «اعُوذُ بِاللّهِ مِن الشِّیطانِ الرَّجِیمِِ» ۔ شیطان نے کہا اے اللہ کے نبی آخر آپ میرے داؤ سے کیسے بچ جاتے ہیں؟ نبی علیہ السلام نے کہا تو بتا کہ تو بنی آدم پر کس داؤ سے غالب آ جاتا ہے؟ آخر معاہدہ ہوا کہ ہر ایک صحیح چیز دوسرے کو بتا دے، تو نبی اللہ نے کہا سن اللہ کا فرمان ہے کہ میرے خاص بندوں پر تیرا کوئی اثر نہیں۔ صرف ان پر جو خود گمراہ ہوں اور تیری ماتحتی کریں۔‏‏‏‏ اس اللہ کے دشمن نے کہا یہ آپ نے کیا فرمایا اسے تو میں آپ کی پیدائش سے بھی پہلے سے جانا ہوں، نبی نے کہا اور سن اللہ کا فرمان ہے کہ «وَإِمَّا يَنزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّـهِ إِنَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ» [7-الأعراف:200] ‏‏‏‏ ” جب شیطانی حرکت ہو تو اللہ سے پناہ طلب کر، وہ سننے جاننے والا ہے “۔ واللہ تیری آہٹ پاتے ہی میں اللہ سے پناہ چاہ لیتا ہوں۔‏‏‏‏ اس نے کہا سچ ہے اسی سے آپ میرے پھندے میں نہیں پھنستے۔

نبی اللہ علیہ السلام نے فرمایا اب تو بتا کہ تو ابن آدم پر کسے غالب آ جاتا ہے؟ اس نے کہا کہ میں اسے غصے اور خواہش کے وقت دبوچ لیتا ہوں۔‏‏‏‏

پھر فرماتا ہے کہ ” جو کوئی بھی ابلیس کی پیروی کرے، وہ جہنمی ہے “۔ یہی فرمان قرآن سے کفر کرنے والوں کی نسبت ہے۔