تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 21، 22، 23، 24، 25،
اللہ تعالٰی کے خزانے ٭٭
تمام چیزوں کا تنہا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ ہر کام اس پر آسان ہے۔ ہر قسم کی چیزوں کے خزانے اس کے پاس موجود ہیں۔ جتنا، جب اور جہاں چاہتا ہے، نازل فرماتا ہے۔ اپنی حکمتوں کا عالم وہی ہے۔ بندوں کی مصلحتوں سے بھی واقف ہے۔ یہ محض اس کی مہربانی ہے ورنہ کون ہے جو اس پر جبر کر سکے۔
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہر سال بارش برابر ہی برستی ہے، ہاں تقسم اللہ کے ہاتھ ہے، پھر آپ رضی اللہ عنہ نے یہی آیت تلاوت فرمائی۔
حکم بن عیینہ سے بھی یہی قول مروی ہے، کہتے ہیں کہ بارش کے ساتھ اس قدر فرشتے اترتے ہیں، جن کی گنتی کل انسانوں اور جنات سے زیادہ ہوتی ہے، ایک ایک قطرے کا خیال رکھتے ہیں کہ وہ کہاں برسا اور اس سے کیا اگا۔
مسند بزار میں ہے کہ اللہ کے پاس کے خزانے کیا ہیں؟ صرف کلام ہے جب کہا ہو جا ہو گیا ۔ [المیزان:1021:ضعیف جدا] اس کا ایک روای قوی نہیں۔
” ہوا چلا کر ہم بادلوں کو پانی سے بوجھل کر دیتے ہیں، اس میں پانی برسنے لگتا ہے۔ یہی ہوائیں چل کر درختوں کو بار دار کر دیتی ہیں کہ پتے اور کونپلیں پھوٹنے لگتی ہیں “، اس وصف کو بھی خیال میں رکھئے کہ یہاں جمع کا صیغہ لائے ہیں اور «الرِّيَاحَ لَوَاقِحَ» میں وصف وحدت کے ساتھ کیا ہے تاکہ کثرت سے نتیجہ بر آمد ہو۔
بارداری کم از کم دو چیزوں کے بغیر ناممکن ہے۔ ہوا چلتی ہے وہ آسمان سے پانی اٹھاتی ہے اور بادلوں کو پر کر دیتی ہے۔ ایک ہوا ہوتی ہے جو زمین میں پیداوار کی قوت پیدا کرتی ہے، ایک ہوا ہوتی ہے جو بادلوں کو ادھر ادھر سے اٹھاتی ہے، ایک ہوا ہوتی ہے جو انہیں جمع کر کے تہ بہ تہ کر دیتی ہے، ایک ہوا ہوتی ہے جو انہیں پانی سے بوجھل کر دیتی ہے، ایک ہوا ہوتی ہے جو درختوں کو پھل دار ہونے کے قابل کردیتی ہے۔
ابن جریر میں بہ سند ضعیف ایک حدیث مروی ہے کہ جنوبی ہوا جنتی ہے اس میں لوگوں کے منافع ہیں اور اسی کا ذکر کتاب اللہ میں ہے ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:21109:ضعیف]
مسند حمیدی کی حدیث میں ہے کہ ہواؤں کے سات سال بعد اللہ تعالیٰ نے جنت میں ایک ہوا پیدا کی ہے جو ایک دروازے سے رکی ہوئی ہے۔ اسی بند دروازے سے تمہیں ہوا پہنچتی رہتی ہے، اگر وہ کھل جائے تو زمین و آسمان کی تمام چیزیں ہوا سے الٹ پلٹ ہو جائیں۔ اللہ کے ہاں اس کا نام اذیب ہے، تم اسے جنوبی ہوا کہتے ہو ۔ [مسند بزار:2088:ضعیف]
پھر فرماتا ہے کہ ” اس کے بعد ہم تم پر میٹھا پانی برساتے ہیں کہ تم پیو اور کام میں لاؤ۔ اگر ہم چاہیں تو اسے کڑوا اور کھاری کر دیں “۔
جیسے سورۃ الواقعہ میں فرمان ہے کہ «أَفَرَأَيْتُمُ الْمَاءَ الَّذِي تَشْرَبُونَ أَأَنتُمْ أَنزَلْتُمُوهُ مِنَ الْمُزْنِ أَمْ نَحْنُ الْمُنزِلُونَ لَوْ نَشَاءُ جَعَلْنَاهُ أُجَاجًا فَلَوْلَا تَشْكُرُونَ» [56-الواقعة:68-70] ” جس میٹھے پانی کو تم پیا کرتے ہو اسے بادل سے برسانے والے بھی کیا تم ہی ہو؟ یا ہم ہیں؟ اگر ہم چاہیں تو اسے کڑوا کر دیں تعجب ہے کہ تم ہماری شکر گزاری نہیں کرتے؟ “
اور آیت میں ہے «هُوَ الَّذِي أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً لَّكُم مِّنْهُ شَرَابٌ وَمِنْهُ شَجَرٌ فِيهِ تُسِيمُونَ» [16-النحل:10] ” اسی اللہ نے تمہارے لیے آسمان سے پانی اتارا ہے جسے تم پیتے بھی ہو اور اسی سے اگے ہوئے درختوں کو تم اپنے جانوروں کو چراتے ہو “۔
” تم اس کے خازن یعنی مانع اور حافظ نہیں ہو۔ ہم ہی برساتے ہیں ہم ہی جہاں چاہتے ہیں، پہنچاتے ہیں، جہاں چاہتے ہیں، محفوظ کردیتے ہیں۔ اگر ہم چاہیں زمین میں دھنسا دیں “۔
” یہ صرف ہماری رحمت ہے کہ اسے برسایا، بچایا، میٹھا کیا، ستھرا کیا تاکہ تم پیو، اپنے جانوروں کو پلاؤ۔ اپنی کھیتیاں اور باغات بساؤ،؟ اپنی ضرورتیں پوری کرو۔ ہم مخلوق کی ابتداء اور پھر اس کے اعادہ پر قادر ہیں۔ سب کو عدم سے وجود میں لائے۔ سب کو پھر معدوم ہم کریں گے۔ پھر قیامت کے دن سب کو اٹھا بٹھائیں گے “۔
” زمین کے اور زمین والوں کے وارث ہم ہی ہیں۔ سب کے سب ہماری طرف لوٹائے جائیں گے۔ ہمارے علم کی کوئی انتہا نہیں۔ اول آخر سب ہمارے علم میں ہے “۔
پس آگے والوں سے مراد تو اس زمانے سے پہلے کے لوگ ہیں آدم علیہ السلام تک کے۔ اور پچھلوں سے مراد اس زمانے کے اور آئندہ زمانے کے لوگ ہیں۔
مروان بن حکم سے مروی ہے کہ بعض لوگ بوجہ عورتوں کے پچھلی صفوں میں رہا کرتے تھے پس یہ آیت اتری۔ اس بارے میں ایک بہت ہی غریب حدیث بھی وارد ہوئی ہے۔
ابن جریر میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک بہت ہی خوش شکل عورت نماز میں آیا کرتی تھی تو بعض مسلمان اس خیال سے کہ اس پر نگاہ نہ پڑے۔ آگے بڑھ جاتے تھے اور بعض ان کے خلاف اور پیچھے ہٹ آتے تھے اور سجدے کی حالت میں اپنے ہاتھوں تلے سے دیکھتے تھے پس یہ آیت اتری ۔ [سنن ابن ماجہ:1046،قال الشيخ الألباني:صحیح] لیکن اس روایت میں سخت نکارت ہے۔
عبدالرزاق میں ابو الجواز کا قول اس آیت کے بارے میں مروی ہے کہ ”نماز کی صفوں میں آگے بڑھنے والے اور پیچھے ہٹنے والے۔“ یہ صرف ان کا قول ہے ابن عباس رضی اللہ عنہ کا اس میں ذکر نہیں۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں ”یہی مشابہ ہے“ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
محمد بن کعب کے سامنے عون بن عبداللہ جب یہ کہتے ہیں تو آپ فرماتے ہیں ”یہ مطلب نہیں بلکہ اگلوں سے مراد وہ ہیں جو مر چکے اور پچھلوں سے مراد اب پیدا شدہ اور پیدا ہونے والے ہیں۔ تیرا رب سب کو جمع کرے گا وہ حکمت و علم والا ہے۔“ یہ سن کر عون رحمہ اللہ نے فرمایا ”اللہ آپ کو توفیق اور جزائے خیر دے۔“