قرآن مجيد

سورة الحجر
لَا يُؤْمِنُونَ بِهِ وَقَدْ خَلَتْ سُنَّةُ الْأَوَّلِينَ[13]
وہ اس پر ایمان نہیں لاتے اور یقینا (یہی) پہلے لوگوں کا طریقہ گزرا ہے۔[13]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 10، 11، 12، 13،

باب

اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تسکین دیتا ہے کہ ” جس طرح لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلا رہے ہیں اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کے نبیوں کو بھی وہ جھٹلا چکے ہیں۔ ہر امت کے رسول علیہ السلام کی تکذیب ہوئی ہے اور اسے مذاق میں اڑایا گیا ہے “۔

ضدی اور متکبر گروہ کے دلوں میں بہ سبب ان کے حد سے بڑھے ہوئے گناہوں کے تکذیب رسول سمو دی جاتی ہے یہاں مجرموں سے مراد مشرکین ہیں۔ وہ حق کو قبول کرتے ہی نہیں، نہ کریں۔ اگلوں کی عادت ان کے سامنے ہے جس طرح وہ ہلاک اور برباد ہوئے اور ان کے انبیاء علیہم السلام نجات پاگئے اور ایماندار عافیت حاصل کرگئے۔ وہی نتیجہ یہ بھی یاد رکھیں۔ دنیا آخرت کی بھلائی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت میں اور دونوں جہان کی رسوائی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں ہے۔