قرآن مجيد

سورة إبراهيم
الَّذِينَ يَسْتَحِبُّونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا عَلَى الْآخِرَةِ وَيَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ وَيَبْغُونَهَا عِوَجًا أُولَئِكَ فِي ضَلَالٍ بَعِيدٍ[3]
وہ جو دنیا کی زندگی کو آخرت کے مقابلے میں بہت زیادہ محبوب رکھتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روکتے اور اس میں کجی ڈھونڈتے ہیں، یہ لوگ بہت دور کی گمراہی میں ہیں۔[3]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 1، 2، 3،

تفسیر سورۂ ابراھیم ٭٭

حروف مقطعہ جو سورتوں کے شروع میں آتے ہیں انکا بیان پہلے گزر چکا ہے۔ اے نبی! یہ عظیم الشان کتاب ہم نے تیری طرف اتاری ہے۔ یہ کتاب تمام کتابوں سے اعلیٰ، رسول تمام رسولوں سے افضل و بالا۔ جہاں اتری وہ جگہ دنیا کی تمام جگہوں سے بہترین اور عمدہ۔ اس کتاب کا پہلا وصف یہ ہے کہ اس کے ذریعہ سے تو لوگوں کو اندھیروں سے اجالے میں لا سکتا ہے۔ تیرا پہلا کام یہ ہے کہ گمراہیوں کو ہدایت سے برائیوں کو بھلائیوں سے بدل دے ایمانداروں کا حمایتی خود اللہ ہے وہ انہیں اندھیروں سے اجالے میں لاتا ہے اور کافروں کے کے ساتھی اللہ کے سوا اور ہیں جو انہیں نور سے ہٹا کر تاریکیوں میں پھانس دیتے ہیں۔

«اللَّـهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَوْلِيَاؤُهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُم مِّنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ أُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ» [2-البقرة:257] ‏‏‏‏ ” ا اللہ ان لوگوں کا دوست ہے جو ایمان لائے، وہ انھیں اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے اور وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا ان کے دوست باطل معبود ہیں، وہ انھیں روشنی سے نکال کر اندھیروں کی طرف لاتے ہیں۔ یہ لوگ آگ والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ “

«الَّذِي يُنَزِّلُ عَلَىٰ عَبْدِهِ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ لِّيُخْرِجَكُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَإِنَّ اللَّـهَ بِكُمْ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ» [57-الحديد:9] ‏‏‏‏ اصل ہادی اللہ ہی ہے رسولوں کے ہاتھوں جن کی ہدایت اسے منظور ہوتی ہے وہ راہ پا لیتے ہیں اور غیر مغلوب پر غالب زبردست اور ہر چیز پر بادشاہ بن جاتے ہیں اور ہر حال میں تعریفوں والے اللہ کی راہ کی طرف ان کی رہبری ہو جاتی ہے۔

«اللهِ ِ» کی دوسری قرأت «اللهُ» بھی ہے پہلی قرأت بطور صفت کے ہے اور دوسری بطور نئے جملے کے جیسے آیت «‏‏‏‏قُلْ يَاأَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ» [7-الأعراف:158] ‏‏‏‏، میں۔

جو کافر تیرے مخالف ہیں تجھے نہیں مانتے انہیں قیامت کے دن سخت عذاب ہوں گے۔ یہ لوگ دنیا کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں دنیا کے لیے پوری کوشش کرتے ہیں اور آخرت کو بھولے بیٹھے ہیں رسولوں کی تابعداری سے دوسروں کو بھی روکتے ہیں راہ حق جو سیدھی اور صاف ہے اسے ٹیڑھی ترچھی کرنا چاہتے ہیں یہ اسی جہالت ضلالت میں رہیں گے لیکن اللہ کی راہ نہ ٹیڑھی ہوئی نہ ہو گی۔ پھر ایسی حالت میں ان کی صلاحیت کی کیا امید؟