اور کیا انھوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کی طرف آتے ہیں، اسے اس کے کناروں سے کم کرتے آتے ہیں اور اللہ فیصلہ فرماتا ہے، اس کے فیصلے پر کوئی نظر ثانی کرنے والا نہیں اور وہ جلد حساب لینے والا ہے ۔[41]
” تیرے دشمنوں پر جو ہمارے عذاب آنے والے ہیں وہ ہم تیری زندگی میں لائیں تو اور تیرے انتقال کے بعد لائے تو تجھے کیا؟ “ «فَذَكِّرْ إِنَّمَا أَنتَ مُذَكِّرٌ لَّسْتَ عَلَيْهِم بِمُصَيْطِرٍ إِلَّا مَن تَوَلَّىٰ وَكَفَرَ فَيُعَذِّبُهُ اللَّـهُ الْعَذَابَ الْأَكْبَرَ إِنَّ إِلَيْنَا إِيَابَهُمْ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا حِسَابَهُم» [88-الغاشية:21-26] ” تیرا کام تو صرف ہمارے پیغام پہنچا دینا ہے وہ تو کر چکا۔ ان کا حساب ان کا بدلہ ہمارے ہاتھ ہے۔ تو صرف انہیں نصیحت کر دے تو ان پر کوئی داروغہ اور نگہبان نہیں۔ جو منہ پھیرے گا اور کفر کرے گا اسے اللہ ہی بڑی سزاؤں میں داخل کر دے گا ان کا لوٹنا تو ہماری طرف ہی ہے اور ان کا حساب بھی ہمارے ذمے ہے “۔
کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ہم زمین کو تیرے قبضے میں دیتے آ رہے ہیں؟ کیا وہ نہیں دیکھتے کہ آباد اور عالی شان محل کھنڈر اور ویرانے بنتے جا رہے ہیں؟ کیا وہ نہیں دیکھتے کہ مسلمان کافروں کو دباتے چلے آ رہے کیا وہ نہیں دیکھتے کہ برکتیں اٹھتی جا رہی ہیں خرابیاں آتی جا رہی ہیں؟ لوگ مرتے جا رہے ہیں زمین اجڑتی جا رہی ہے؟ خود زمین ہی اگر تنگ ہوتی جاتی تو تو انسان کو چھپڑ ڈالنا بھی محال ہو جاتا مقصد انسان کا اور درختوں کا کم ہوتے رہنا ہے۔ مراد اس سے زمین کی تنگی نہیں بلکہ لوگوں کی موت ہے علماء فقہاء اور بھلے لوگوں کی موت بھی زمین کی بربادی ہے۔
عرب شاعر کہتا ہے «الْأَرْضُ تَحْيَا إِذَا مَا عَاشَ عَالِمُهَا مَتَى يَمُتْ عَالِمٌ مِنْهَا يَمُتْ طَرَف» «كَالْأَرْضِ تَحْيَا إِذَا مَا الْغَيْثُ حَلَّ بِهَا وَإِنْ أَبَى عَادَ فِي أَكْنَافِهَا التَّلَفُ» یعنی جہاں کہیں جو عالم دین ہے وہاں کی زمین کی زندگی اسی سے ہے۔ اس کی موت اس زمین کی ویرانی اور خرابی ہے۔
جیسے کہ بارش جس زمین پر برسے لہلہانے لگتی ہے اور اگر نہ برسے تو سوکھنے اور بنجر ہونے لگتی ہے۔ پس آیت میں مراد اسلام کا شرک پر غالب آنا ہے، ایک کے بعد ایک بستی کو تابع کرنا ہے۔
جیسے فرمایا آیت «وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا مَا حَوْلَكُم مِّنَ الْقُرَىٰ» [46-الأحقاف:27] الخ، یہی قول امام ابن جریر رحمہ اللہ کا بھی پسندیدہ ہے۔