سورتوں کے شروع میں جو حروف مقطعات آتے ہیں ان کی پوری تشریح سورۃ البقرہ کی تفسیر کے شروع میں لکھ آئے ہیں، اور یہ بھی ہم کہہ آئے ہیں کہ جس سورت کے اول میں یہ حروف آئے ہیں وہاں عموماً یہی بیان ہوتا ہے کہ قرآن کلام اللہ ہے اس میں کوئی شک و شبہ نہیں۔
چنانچہ یہاں بھی ان حروف کے بعد فرمایا ” یہ کتاب کی یعنی قرآن کی آیتیں ہیں “۔ بعض نے کہا مراد کتاب سے توراۃ انجیل ہے لیکن یہ ٹھیک نہیں۔ پھر اسی پر عطف ڈال کر اور صفتیں اس پاک کتاب کی بیان فرمائیں کہ یہ سراسر حق ہے اور اللہ کی طرف سے تجھ پر اتارا گیا ہے۔
«الْحَقُّ» خبر ہے اس کا مبتدا پہلے بیان ہوا ہے یعنی «الَّذِي أُنزِلَ إِلَيْكَ» لیکن ابن جریر رحمہ اللہ کا پسندیدہ قول یہ ہے کہ واؤ زائد ہے یہ عاطفہ ہے اور صفت کا صفت پر عطف ہے جیسے ہم نے پہلے کہا ہے پھر اسکی شہادت میں شاعر کا قول لائے ہیں۔
پھر فرمایا کہ ” باوجود حق ہونے کے پھر بھی اکثر لوگ ایمان سے محروم ہیں“۔ اس سے پہلے گزرا ہے کہ ” گو تو حرص کرے لیکن اکثر لوگ ایمان قبول کرنے والے نہیں “۔ [12-يوسف:103] یعنی اس کی حقانیت واضح ہے لیکن ان کی ضد، ہٹ دھری اور سرکشی انہیں ایمان کی طرف متوجہ نہ ہونے دے گی۔