قرآن مجيد

سورة يوسف
قَالُوا يَا أَبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا إِنَّا كُنَّا خَاطِئِينَ[97]
انھوں نے کہا اے ہمارے باپ! ہمارے لیے ہمارے گناہوں کی بخشش کی دعا کر، یقینا ہم خطا کار تھے۔[97]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 96، 97، 98،

باب

کہتے ہیں کہ پیراہن یوسف علیہ السلام یعقوب علیہ السلام کے بڑے صاحبزادے یہودا لائے تھے۔ اس لیے کہ انہوں نے ہی پہلے جھوٹ موٹ وہ کرتا پیش کیا تھا۔ جسے خون آلود کر کے لائے تھے اور باپ کو یہ سمجھایا تھا کہ یوسف علیہ السلام کا خون ہے، اب بدلے کے لیے یہ کرتہ بھی یہی لائے کہ برائی کے بدلے بھلائی ہو جائے بری خبر کے بدلے خوشخبری ہو جائے۔ آتے ہی باپ کے منہ پر ڈالا۔ اسی وقت یعقوب علیہ السلام کی آنکھیں کھل گئیں اور بچوں سے کہنے لگے دیکھو میں تو ہمیشہ تم سے کہا کرتا تھا کہ اللہ کی بعض وہ باتیں میں جانتا ہوں جن سے تم محض بے خبر ہو۔ میں تم سے کہا کرتا تھا کہ اللہ تعالیٰ میرے یوسف علیہ السلام کو ضرور مجھ سے ملائے گا، ابھی تھوڑے دنوں کا ذکر ہے کہ میں نے تم سے کہا تھا کہ مجھے آج میرے یوسف کی خوشبو آ رہی ہے۔

باپ جواب میں فرماتے ہیں کہ مجھے اس سے انکار نہیں اور مجھے اپنے رب سے یہ بھی امید ہے کہ وہ تمہاری خطائیں معاف فرما دے گا اس لیے کہ وہ بخششوں اور مہربانیوں والا ہے توبہ کرنے والوں کی توبہ قبول فرما لیا کرتا ہے میں صبح سحری کے وقت تمہارے لیے استغفار کروں گا۔ ابن جریر میں ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ مسجد میں آتے تو سنتے کہ کوئی کہہ رہا ہے کہ اللہ تو نے پکارا، میں نے مان لیا تو نے حکم دیا میں بجا لایا، یہ سحر کا وقت ہے، پس تو مجھے بخش دے، آپ نے کان لگا کر غور کیا تو معلوم ہوا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے گھر سے یہ آواز آ رہی ہے۔ آپ نے ان سے پوچھا انہوں نے کہا یہی وہ وقت ہے جس کے لیے یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں سے کہا تھا کہ میں تمہارے لیے تھوڑی دیر بعد استغفار کروں گا۔ حدیث میں ہے کہ یہ رات جمعہ کی رات تھی۔ ابن جریر میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مراد اس سے یہ ہے کہ جب جمعہ کی رات آ جائے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:1981:ضعیف] ‏‏‏‏ لیکن یہ حدیث غریب ہے۔ بلکہ اس کے مرفوع ہونے میں بھی کلام ہے «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔