قرآن مجيد

سورة يوسف
قَالُوا جَزَاؤُهُ مَنْ وُجِدَ فِي رَحْلِهِ فَهُوَ جَزَاؤُهُ كَذَلِكَ نَجْزِي الظَّالِمِينَ[75]
انھوں نے کہا اس کی جزا وہ شخص ہے جس کے کجاوے میں وہ پایا جائے، سو وہ شخص ہی اس کی جزا ہے۔ اسی طرح ہم ظالموں کو جزا دیتے ہیں۔[75]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 73، 74، 75،

باب

اپنے اوپر چوری کی تہمت سن کر برادران یوسف کے کان کھڑے ہوئے اور کہنے لگے تم ہمیں جان چکے ہو ہمارے عادات وخصائل سے واقف ہو چکے ہو ہم ایسے نہیں کہ کوئی فساد اٹھائیں ہم ایسے نہیں ہیں کہ چوریاں کرتے پھریں۔ شاہی ملازموں نے کہا اچھا اگر جام و پیمانے کا چور تم میں سے ہی کوئی ہو اور تم جھوٹے پڑو تو اس کی سزا کیا ہونی چاہیئے؟ جواب دیا کہ دین ابراہیمی کے مطابق اس کی سزا یہ ہے کہ وہ اس شخص کے سپرد کر دیا جائے، جس کا مال اس نے چرایا ہے، ہماری شریعت کا یہی فیصلہ ہے۔ اب یوسف علیہ السلام کا مطلب پورا ہو گیا۔ آپ نے حکم دیا کہ ان کی تلاشی لی جائے۔