قرآن مجيد

سورة البقرة
وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ[155]
اور یقینا ہم تمھیں خوف اور بھوک اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی میں سے کسی نہ کسی چیز کے ساتھ ضرور آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کو خوش خبری دے دے۔[155]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 155، 156، 157،

وفائے عہد کے لیے آزمائش لازم ہے ٭٭

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ اپنے بندوں کی آزمائش ضرور کر لیا کرتا ہے کبھی ترقی اور بھلائی کے ذریعہ اور کبھی تنزل اور برائی سے، جیسے فرماتا ہے آیت «وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتّٰى نَعْلَمَ الْمُجٰهِدِيْنَ مِنْكُمْ وَالصّٰبِرِيْنَ وَنَبْلُوَا۟ اَخْبَارَكُمْ» [ 47۔ محمد: 31 ] ‏‏‏‏ یعنی ہم آزما کر مجاہدوں اور صبر کرنے والوں کو معلوم کر لیں گے اور جگہ ہے آیت «فَاَذَاقَهَا اللّٰهُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوْا يَصْنَعُوْنَ» [16-النحل:112] ‏‏‏‏ مطلب یہ ہے کہ تھوڑا سا خوف، کچھ بھوک، کچھ مال کی کمی، کچھ جانوں کی کمی یعنی اپنوں اور غیر خویش و اقارب، دوست و احباب کی موت، کبھی پھلوں اور پیداوار کی نقصان وغیرہ سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو آزما لیتا ہے، صبر کرنے والوں کو نیک اجر اور اچھا بدلہ عنایت فرماتا ہے اور بے صبر جلد باز اور ناامیدی کرنے والوں پر اس کے عذاب اتر آتے ہیں۔ بعض سلف سے منقول ہے کہ یہاں خوف سے مراد اللہ تعالیٰ کا ڈر ہے، بھوک سے مراد روزوں کی بھوک ہے، مال کی کمی سے مراد زکوٰۃ کی ادائیگی ہے، جان کی کمی سے مراد بیماریاں ہیں، پھلوں سے مراد اولاد ہے، لیکن یہ تفسیر ذرا غور طلب ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔

اب بیان ہو رہا ہے کہ جن صبر کرنے والوں کی اللہ کے ہاں عزت ہے وہ کون لوگ ہیں؟ پس فرماتا ہے یہ وہ لوگ ہیں جو تنگی اور مصیبت کے وقت آیت «‏‏‏‏الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ» [ البقرہ: 156 ] ‏‏‏‏ پڑھ لیا کرتے ہیں اور اس بات سے اپنے دل کو تسلی دے لیا کرتے ہیں کہ ہم اللہ کی ملکیت ہیں اور جو ہمیں پہنچا ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور ان میں جس طرح وہ چاہے تصرف کرتا رہتا ہے اور پھر اللہ کے ہاں اس کا بدلہ ہے جہاں انہیں بالآخر جانا ہے، ان کے اس قول کی وجہ سے اللہ کی نوازشیں اور الطاف ان پر نازل ہوتے ہیں عذاب سے نجات ملتی ہے اور ہدایت بھی نصیب ہوتی ہے۔

امیرالمؤمنین سیدنا عمربن خطاب رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں دوبرابر کی چیزیں صلوات اور رحمت اور ایک درمیان کی چیز یعنی ہدایت ان صبر کرنے والوں کو ملتی ہے، مسند احمد میں ہے سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میرے خاوند ابوسلمہ رضی اللہ عنہ ایک روز میرے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہو کر آئے اور خوشی خوشی فرمانے لگے آج تو میں نے ایک ایسی حدیث سنی ہے کہ میں بہت ہی خوش ہوا ہوں وہ حدیث یہ ہے کہ جس کسی مسلمان کو کوئی تکلیف پہنچے اور وہ کہے دعا «اللھم اجرنی فی مصیبتی واخلف لی خیرا منھا» یعنی اللہ مجھے اس مصیبت میں اجر دے اور مجھے اس سے بہتر بدلہ عطا فرما تو اللہ تعالیٰ اسے اجر اور بدلہ ضرور دیتا ہے، سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نے اس دعا کو یاد کر لیا۔

جب ابوسلمہ رضی اللہ عنہما کا انتقال ہوا تو میں نے آیت «الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ» [ البقرہ: 156 ] ‏‏‏‏ پڑھ کر پھر یہ دعا بھی پڑھ لی لیکن مجھے خیال آیا کہ بھلا ابوسلمہ رضی اللہ عنہما سے بہتر شخص مجھے کون مل سکتا ہے؟ جب میری عدت گزر چکی تو میں ایک روز ایک کھال کو دباغت دے رہی تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور اندر آنے کی اجازت چاہی میں نے اپنے ہاتھ دھو ڈالے کھال رکھ دی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اندر تشریف لانے کی درخواست کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک گدی پر بٹھا دیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے اپنا نکاح کرنے کی خواہش ظاہر کی، میں نے کہا یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم یہ تو میری خوش قسمتی کی بات ہے لیکن اوّل تو میں بڑی باغیرت عورت ہوں ایسا نہ ہو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت کے خلاف کوئی بات مجھ سے سرزد ہو جائے اور اللہ کے ہاں عذاب ہو دوسرے یہ کہ میں عمر رسیدہ ہوں، تیسرے بال بچوں والی ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سنو ایسی بے جا غیرت اللہ تعالیٰ تمہاری دور کر دے گا اور عمر میں کچھ میں بھی چھوٹی عمر کا نہیں اور تمہارے بال بچے میرے ہی بال بچے ہیں میں نے یہ سن کر کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کوئی عذر نہیں چنانچہ میرا نکاح اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہو گیا اور مجھے اللہ تعالیٰ نے اس دعا کی برکت سے میرے میاں سے بہت ہی بہتر یعنی اپنا رسول صلی اللہ علیہ وسلم عطا فرمایا۔ «فالْحَمْدُ لِلَّـه»

[مسند احمد:27/4:صحیح] ‏‏‏‏ صحیح مسلم شریف میں بھی یہ حدیث باختلاف الفاظ مروی ہے، [صحیح مسلم:918] ‏‏‏‏ مسند احمد میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کسی مسلمان کو کوئی رنج و مصیبت پہنچے اس پر گویا زیادہ وقت گزر جائے پھر اسے یاد آئے اور وہ انا للہ پڑھے تو مصیبت کے صبر کے وقت جو اجر ملا تھا وہی اب بھی ملے گا، [مسند احمد:201/1:ضعیف] ‏‏‏‏ ابن ماجہ میں ہے ابوسنان رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں نے اپنے ایک بچے کو دفن کیا ابھی میں اس کی قبر میں سے نکلا نہ تھا کہ ابوطلحہ خولانی رحمہ اللہ نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے نکالا اور کہا سنو میں تمہیں ایک خوشخبری سناؤں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ ملک الموت سے دریافت فرماتا ہے تو نے میرے بندے کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور اس کا کلیجہے کا ٹکڑا چھین لیا بتا تو اس نے کیا کہا؟ وہ کہتے ہیں اللہ تیری تعریف کی اور «اناللہ» پڑھا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس کے لیے جنت میں ایک گھر بناؤ اور اس کا نام بیت الحمد رکھ دو۔ [سنن ترمذي:1021، قال الشيخ الألباني:حسن] ‏‏‏‏