قرآن مجيد

سورة يوسف
إِذْ قَالُوا لَيُوسُفُ وَأَخُوهُ أَحَبُّ إِلَى أَبِينَا مِنَّا وَنَحْنُ عُصْبَةٌ إِنَّ أَبَانَا لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ[8]
جب انھوں نے کہا یقینا یوسف اور اس کا بھائی ہمارے باپ کے ہاں ہم سے زیادہ پیارے ہیں، حالانکہ ہم ایک قوی جماعت ہیں۔ بے شک ہمارا باپ یقینا کھلی غلطی میں ہے۔[8]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 7، 8، 9، 10،

یوسف علیہ السلام کے خاندان کا تعارف ٭٭

فی الواقع یوسف اور ان کے بھائیوں کے واقعات اس قابل ہیں کہ ان کا دریافت کرنے والا ان سے بہت سی عبرتیں حاصل کر سکے اور نصیحتیں لے سکے۔ یوسف علیہ السلام کے ایک ہی ماں سے دوسرے بھائی بنیامین علیہ السلام تھے باقی سب بھائی دوسری ماں سے تھے۔ یہ سب آپس میں کہتے ہیں ہے کہ واللہ ابا جان ہم سے زیادہ ان دونوں کو چاہتے ہیں۔ تعجب ہے کہ ہم پر جو جماعت ہیں ان کو ترجیح دیتے ہیں جو صرف دو ہیں۔ یقیناً یہ تو والد صاحب کی صریح غلطی ہے۔ یہ یاد رہے کہ یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کی نبوت پر در اصل کوئی دلیل نہیں اور آیت کا طرز بیان تو بالکل اس کے خلاف پر ہے۔ بعض لوگوں کا بیان ہے کہ اس واقعہ کے بعد انہیں نبوت ملی لیکن یہ چیز بھی محتاج دلیل ہے اور دلیل میں آیت قرآنی «قُولُوا آمَنَّا بِاللَّـهِ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنزِلَ إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ» [ 2-البقرہ: 136 ] ‏‏‏‏ میں سے لفظ «أَسْبَاطِ» پیش کرنا بھی احتمال سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا۔ اس لیے کہ بطون بنی اسرائیل کو اسباط کہا جاتا ہے جیسے کہ عرب کو قبائل کہا جاتا ہے اور عجم کو شعوب کہا جاتا ہے۔ پس آیت میں صرف اتنا ہی ہے کہ بنی اسرائیل کے اسباط پر وحی الٰہی نازل ہو گئی انہیں اس لیے اجمالاً ذکر کیا گیا کہ یہ بہت تھے لیکن ہر سبط برادران یوسف علیہ السلام میں سے ایک کی نسل تھی۔ پس اس کی کوئی دلیل نہیں کہ خاص ان بھائیوں کو اللہ تعالیٰ نے خلعت نبوت سے نوازا تھا «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔ پھر آپس میں کہتے ہیں ایک کام کرو نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ یوسف «علیہ السلام» کا پاپ ہی کاٹو۔ نہ یہ ہو نہ ہماری راہ کا کانٹا بنے۔ ہم ہی ہم نظر آئیں۔ اور ابا کی محبت صرف ہمارے ہی ساتھ رہے۔ اب اسے باپ سے ہٹانے کی دو صورتیں ہیں یا تو اسے مار ہی ڈالو۔

کہیں ایسی دور دوراز جگہ پھینک آؤ کہ ایک کی دوسرے کو خبر ہی نہ ہو۔ اور یہ واردات کر کے پھر نیک بن جانا توبہ کر لینا اللہ معاف کرنے والا ہے یہ سن کر ایک نے مشورہ دیا جو سب سے بڑا تھا اس کا نام روبیل تھا۔ کوئی کہتا ہے یہودا تھا کوئی کہتا ہے شمعون تھا۔ اس نے کہا بھئی یہ تو ناانصافی ہے۔ بے وجہ، بے قصور صرف عداوت میں آ کر خون ناحق گردن پر لینا تو ٹھیک نہیں۔ یہ بھی کچھ اللہ کی حکمت تھی رب کو منظور ہی نہ تھا ان میں قتل یوسف علیہ السلام کی قوت ہی نہ تھی۔ منظور رب تو یہ تھا کہ یوسف علیہ السلام کو نبی بنائے، بادشاہ بنائے اور انہیں عاجزی کے ساتھ اس کے سامنے کھڑا کرے۔ پس ان کے دل روبیل کی رائے سے نرم ہو گئے اور طے ہوا کہ اسے کسی غیر آباد کنویں کی تہ میں پھینک دیں۔ حضرت قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں یہ بیت المقدس کا کنواں تھا انہیں یہ خیال ہوا کہ ممکن ہے مسافر وہاں سے گزریں اور وہ اسے اپنے قافلے میں لے جائیں پھر کہاں یہ اور کہاں ہم؟ جب گڑ دیئے کام نکلتا ہو تو زہر کیوں دو؟ بغیر قتل کئے مقصود حاصل ہوتا ہے تو کیوں ہاتھ خون سے آلود کرو۔ ان کے گناہ کا تصور تو کرو۔ یہ رشتے داری کے توڑنے، باپ کی نافرمانی کرنے، چھوٹے پر ظلم کرنے، بےگناہ کو نقصان پہنچانے بڑے بوڑھے کو ستانے اور حقدار کا حق کاٹنے حرمت و فضیلت کا خلاف کرنے بزرگی کو ٹالنے اور اپنے باپ کو دکھ پہنچانے اور اسے اس کے کلیجے کی ٹھنڈک اور آنکھوں کے سکھ سے ہمیشہ کے لیے دور کرنے اور بوڑھے باپ، اللہ کے لاڈلے پیغمبر کو اس بڑھاپے میں ناقابل برداشت صدمہ پہنچانے اور اس بےسمجھ بچے کو اپنے مہربان باپ کی پیار بھری نگاہوں سے ہمیشہ اوجھل کرنے کے درپے ہیں۔ اللہ کے دو نبیوں کو دکھ دینا چاہتے ہیں۔ محبوب اور محب میں تفرقہ ڈالنا چاہتے ہیں، سکھ کی جانوں کو دکھ میں ڈالنا چاہتے ہیں۔ پھول سے نازک بے زبان بچے کو اس کے مشفق مہربان بوڑھے باپ کی نرم و گرم گودی سے الگ کرتے ہیں۔ اللہ انہیں بخشے آہ شیطان نے کیسی الٹی پڑھائی ہے۔ اور انہوں نے بھی کیسی بدی پر کمر باندھی ہے۔