اس نے کہا اے میرے چھوٹے بیٹے! اپنا خواب اپنے بھائیوں سے بیان نہ کرنا، ورنہ وہ تیرے لیے تدبیر کریں گے، کوئی بری تدبیر۔ بے شک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔[5]
حضرت یوسف کا یہ خواب سن کر اس کی تعبیر کو سامنے رکھ کر یعقوب علیہ السلام نے تاکید کر دی کہ اسے بھائیوں کے سامنے نہ دہرانا کیونکہ اس خواب کی تعبیر یہ ہے کہ اور بھائی آپ کے سامنے پست ہونگے یہاں تک کہ وہ آپ کی عزت و تعظیم کے لیے آپ کے سامنے اپنی بہت ہی لاچاری اور عاجزی ظاہر کریں اس لیے بہت ہی ممکن ہے کہ اس خواب کو سن کر اس کی تعبیر کو سامنے رکھ کر شیطان کے بہکاوے میں آ کر ابھی سے وہ تمہاری دشمنی میں لگ جائیں۔ اور حسد کی وجہ سے کوئی نامعقول طریق کار کرنے لگ جائیں اور کسی حیلے سے تجھے پست کرنے کی فکر میں لگ جائیں۔
چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تعلیم بھی یہی ہے۔ فرماتے ہیں تم لوگ کوئی اچھا خواب دیکھو تو خیر اسے بیان کر دو اور جو شخص کوئی برا خواب دیکھے تو جس کروٹ پر ہو وہ کروٹ بدل دے اور بائیں طرف تین مرتبہ تھتکار دے اور اس کی برائی سے اللہ کی پناہ طلب کرے اور کسی سے اس کا ذکر نہ کرے۔ اس صورت میں اسے وہ خواب کوئی نقصان نہ دے گا۔ [صحیح بخاری:6995]
مسند احمد وغیرہ کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں خواب کی تعبیر جب تک نہ لی جائے وہ گویا پرند کے پاؤں پر ہے۔ ہاں جب اس کی تعبیر بیان ہو گئی پھر وہ ہو جاتا ہے۔ [سنن ابوداود:5020،قال الشيخ الألباني:صحیح] اسی سے یہ حکم بھی لیا جا سکتا ہے۔ کہ نعمت کو چھپانا چاہیئے۔ جب تک کہ وہ ازخود اچھی طرح حاصل نہ ہو جائے اور ظاہر نہ ہو جائے، جیسے کہ ایک حدیث میں ہے۔ ضرورتوں کے پورا کرنے پر ان کی چھپانے سے بھی مدد لیا کرو کیونکہ ہر وہ شخص جسے کوئی نعمت ملے لوگ اس کے حسد کے درپے ہو جاتے ہیں۔ [بیهقی فی شعب الایمان:6655:صحیح]