اور کہا گیا اے زمین! تو اپنا پانی نگل لے اور اے آسمان! تو تھم جا اور پانی نیچے اتار دیا گیا اور کام تمام کر دیا گیا اور وہ جودی پر جا ٹھہری اور کہا گیا ظالم لوگوں کے لیے دوری ہو۔[44]
روئے زمین کے سب لوگ اس طوفان میں جو درحقیقت غضب الٰہی اور مظلوم پیغمبر علیہ السلام کی بد دعا کا عذاب تھا غرق ہوگئے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ عزوجل نے زمین کو اس پانی کے نگل لینے کا حکم دیا جو اس کا اگلا ہوا اور آسمان کا برسایا ہوا تھا۔ ساتھ ہی آسمان کو بھی پانی برسانے سے رک جانے کا حکم ہو گیا۔ پانی گھٹنے لگا اور کام پورا ہو گیا یعنی تمام کافر نابود ہوگئے، صرف کشتی والے مومن ہی بچے۔ کشتی بحکم ربی جودی پر رکی۔
مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں ”یہ جزیرہ میں ایک پہاڑ ہے سب پہاڑ ڈبو دیئے گئے تھے اور یہ پہاڑ بوجہ اپنی عاجزی اور تواضع کے غرق ہونے سے بچ رہا تھا یہیں کشتی نوح علیہ السلام لنگر انداز ہوئی۔“
قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”مہینے بھر تک یہیں لگی رہی اور سب اتر گئے اور کشتی لوگوں کی عبرت کے لیے یہیں ثابت و سالم رکھی رہی یہاں تک کہ اس امت کے اول لوگوں نے بھی اسے دیکھ لیا۔ حالانکہ اس کے بعد کی بہترین اور مضبوط سینکڑوں کشتیاں بنیں بگڑیں بلکہ راکھ اور خاک ہو گئیں۔“
ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں جودی نام کا پہاڑ موصل میں ہے۔“ بعض کہتے ہیں طور پہاڑ کو ہی جودی بھی کہتے ہیں۔ زربن حبیش کو ابواب کندہ سے داخل ہو کر دائیں طرف کے زاویہ میں نماز بکثرت پڑھتے ہوئے دیکھ کر نوبہ بن سالم نے پوچھا کہ ”آپ جو جمعہ کے دن برابر یہاں اکثر نماز پڑھا کرتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے؟“ تو آپ نے جواب دیا کہ ”کشتی نوح علیہ السلام یہیں لگی تھی۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ ”نوح علیہ السلام کے ساتھ کشتی میں بال بچوں سمیت کل اسی (80) آدمی تھے۔ ایک سو پچاس دن تک وہ سب کشتی میں ہی رہے۔ اللہ تعالیٰ نے کشتی کا منہ مکہ شریف کی طرف کر دیا۔ یہاں وہ چالیس دن تک بیت اللہ شریف کا طواف کرتی رہی۔ پھر اسے اللہ تعالیٰ نے جودی کی طرف روانہ کر دیا، وہاں وہ ٹھہر گئی۔ نوح علیہ السلام نے کوے کو بھیجا کہ وہ خشکی کی خبر لائے۔ وہ ایک مردار کے کھانے میں لگ گیا اور دیر لگا دی۔ آپ علیہ السلام نے ایک کبوتر کو بھیجا وہ اپنی چونچ میں زیتوں کے درخت کا پتہ اور پنجوں میں مٹی لے کر واپس آیا۔ اس سے نوح علیہ السلام نے سمجھ لیا کہ پانی سوکھ گیا ہے اور زمین ظاہر ہو گئی ہے۔ پس آپ علیہ السلام جودی کے نیچے اترے اور وہیں ایک بستی کی بناء ڈال دی جسے «ثمانین» کہتے ہیں۔ ایک دن صبح کو جب لوگ جاتے تو ہر ایک کی زبان بدلی ہوئی تھی۔ ایسی زبانیں بولنے لگے جن میں سب سے اعلیٰ اور بہترین عربی زبان تھی۔ ایک کو دوسرے کا کلام سمجھنا محال ہو گیا۔ نوح علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے سب زبانیں معلوم کرا دیں، آپ علیہ السلام ان سب کے درمیان مترجم تھے۔ ایک کا مطلب دوسرے کو سمجھا دیتے تھے۔“ کعب احبار فرماتے ہیں کہ ”کشتی نوح علیہ السلام مشرق مغرب کے درمیان چل پھر رہی تھی پھر جودی پر ٹھہر گئی۔“ قتادہ رحمہ اللہ وغیرہ فرماتے ہیں ”رجب کی دسویں تاریخ مسلمان اس میں سوار ہوئے تھے پانچ ماہ تک اسی میں رہے انہیں لے کر کشتی جودی پر مہینے بھر تک ٹھہری رہی۔ آخر محرم کے عاشورے کے دن وہ سب اس میں سے اترے۔“
اسی قسم کی ایک مرفوع حدیث بھی ابن جریر میں ہے، انہوں نے اس دن روزہ بھی رکھا ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:18202:مرسل و ضعیف] «وَاللهُ اَعْلَمُ»
مسند احمد میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ و علیہ وسلم نے چند یہودیوں کو عاشورہ کے دن روزہ رکھتے ہوئے دیکھ کر ان سے اس کا سبب دریافت فرمایا تو انہوں نے کہا اسی دن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو دریا سے پار اتارا تھا اور فرعون اور اس کی قوم کو ڈبو دیا تھا۔ اور اسی دن کشتی نوح علیہ السلام جودی پر لگی تھی۔ پس ان دونوں پیغمبروں علیہما السلام نے شکر الٰہی کا روزہ اس دن رکھا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا: ”پھر موسیٰ علیہ السلام کا سب سے زیادہ حقدار میں ہوں اور اس دن کے روزے کا میں زیادہ مستحق ہوں۔“ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن کا روزہ رکھا اور اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم سے فرمایا کہ تم میں سے جو آج روزے سے ہو وہ تو اپنا روزہ پورا کرے اور جو ناشتہ کر چکا ہو وہ بھی باقی دن کچھ نہ کھائے ۔ [مسند احمد:359/2:صحیح لغیره] یہ روایت اس سند سے تو غریب ہے لیکن اس کے بعض حصے کے شاہد صحیح حدیث میں بھی موجود ہیں۔
پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ” ظالموں کو خسارہ، ہلاکت اور رحمت حق سے دوری ہوئی “۔ وہ سب ہلاک ہوئے ان میں سے ایک بھی باقی نہ بچا۔
تفسیر ابن جریر اور تفسیر ابن ابی حاتم میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر اللہ تعالیٰ قوم نوح علیہ السلام میں سے کسی پر بھی رحم کرنے والا ہوتا تو اس بچے کی ماں پر رحم کرتا۔“ نوح علیہ السلام اپنی قوم میں ساڑھے نو سو سال تک ٹھہرے آپ علیہ السلام نے ایک درخت بویا تھا جو سو سال تک بڑھتا اور بڑا ہوتا رہا پھر اسے کاٹ کر تختے بنا کر کشتی بنانی شروع کی۔ کافر لوگ مذاق اڑاتے کہ یہ اس خشکی میں کشتی کیسے چلائیں گے؟ آپ علیہ السلام جواب دیتے تھے کہ ”عنقریب اپنی آنکھوں سے دیکھ لو گے۔“ جب آپ علیہ السلام بنا چکے اور پانی زمین سے ابلنے اور آسمان سے برسنے لگا اور گلیاں اور راستے پانی سے ڈوبنے لگے تو اس بچے کی ماں جسے اپنے اس بچے سے غایت درجے کی محبت کی تھی وہ اسے لے کر پہاڑ کی طرف چلی گئی اور جلدی جلدی اس پر چڑھنا شروع کیا، تہائی حصے پر چڑھ گئی لیکن جب اس نے دیکھا کہ پانی وہاں بھی پہنچا تو اور اوپر کو چڑھی۔ دو تہائی کو پہنچی جب پانی وہاں بھی پہنچا تو اس نے چوٹی پر جا کر دم لیا لیکن پانی وہاں بھی پہنچ گیا جب گردن گردن پانی چڑھ گیا تو اس نے اپنے بچے کو اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر اونچا اٹھا لیا لیکن پانی وہاں بھی پہنچا اور ماں بچہ دنوں غرق ہو گئے۔ پس اگر اس دن کوئی کافر بھی بچنے والا ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس بچے کی ماں پر رحم کرتا۔ [سلسلة احادیث ضعیفه البانی:5985:منکر] یہ حدیث اس سند سے غریب ہے کہ کعب احبار، مجاہد اور ابن جبیر سے بھی اس بچے اور اس کی ماں کا یہی قصہ مروی ہے۔