قرآن مجيد

سورة هود
مَثَلُ الْفَرِيقَيْنِ كَالْأَعْمَى وَالْأَصَمِّ وَالْبَصِيرِ وَالسَّمِيعِ هَلْ يَسْتَوِيَانِ مَثَلًا أَفَلَا تَذَكَّرُونَ[24]
دونوں گروہوں کی مثال اندھے اور بہرے اور دیکھنے والے اور سننے والے کی طرح ہے، کیا یہ دونوں مثال میں برابر ہیں، تو کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے۔[24]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 23، 24،

عقل و ہوش اور ایمان والے لوگ ٭٭

بروں کے ذکر کے بعد اچھے لوگوں کا بیان ہو رہا ہے جن کے دل ایمان والے، جن کے جسمانی اعضاء فرماں برداری کرنے والے تھے، قول و فعل سے فرمان رب بجا لانے والے اور رب کی نافرمانی سے بچنے والے تھے یہ لوگ جنت کے وارث ہوں گے۔

بلند و بالا بالاخانے، بچھے بچھائے تخت، جھکے ہوئے خوشوں اور میوؤں کے درخت ابھرے ابھرے فرش، خوبصورت بیویاں، قسم قسم کے خوش ذائقہ پھل، چاہت کے لذیذ کھانے پینے اور سب سے بڑھ کر دیدار الٰہی یہ نعمتیں ہوں گی جو ان کے لیے ہمیشگی کے لیے ہوں گی۔ نہ انہیں موت آئے گی نہ بڑھاپا، نہ بیماری، نہ غفلت، نہ رفع حاجت ہو گی، نہ تھوک، نہ ناک مشک، نہ بو والا پسینہ آیا اور غذا ہضم۔ پہلے بیان کردہ کافر شقی لوگ اور یہ مومن متقی لوگ بالکل وہی نسبت رکھتے ہیں جو اندھے بہرے اور بینا اور سنتے میں ہے۔

اور آیت میں ہے کہ «وَلَوْ عَلِمَ اللَّـهُ فِيهِمْ خَيْرًا لَّأَسْمَعَهُمْ وَلَوْ أَسْمَعَهُمْ لَتَوَلَّوا وَّهُم مُّعْرِضُونَ» [8-الأنفال:23] ‏‏‏‏ ” کافر دنیا میں حق کو دیکھنے میں اندھے تھے اور آخرت کے دن بھی بھلائی کی راہ نہیں پائیں گے نہ اسے دیکھیں گے “۔

وہ حقانیت کی دلیلوں کی سننے سے بہرے تھے، نفع دینے والی بات سنتے ہی نہ تھے، اگر ان میں کوئی بھلائی ہوتی تو اللہ تعالیٰ انہیں ضرور سناتا۔ اس کے برخلاف مومن سمجھ دار، ذکی، عاقل، عالم، دیکھتا، بھالتا، سوچتا، سمجھتا حق و باطل میں تمیز کرتا۔ بھلائی لے لیتا، برائی چھوڑ دیتا، دلیل اور شبہ میں فرق کر لیتا اور باطل سے بچتا، حق کو مانتا۔ بتلائیے یہ دونوں کیسے برابر ہو سکتے ہیں؟ تعجب ہے کہ پھر بھی تم ایسے دو مختلف شخصوں میں فرق نہیں سمجھتے۔

ارشاد ہے «لَا يَسْتَوِيْٓ اَصْحٰبُ النَّارِ وَاَصْحٰبُ الْجَنَّةِ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ هُمُ الْفَاىِٕزُوْنَ» [59-الحشر:20] ‏‏‏‏ ” دوزخی اور جنتی ایک نہیں ہوتے جنتی تو بالکل کامیاب ہیں “۔ اور آیت میں ہے «وَمَا يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ وَلَا الظُّلُمَاتُ وَلَا النُّورُ وَلَا الظِّلُّ وَلَا الْحَرُورُ وَمَا يَسْتَوِي الْأَحْيَاءُ وَلَا الْأَمْوَاتُ إِنَّ اللَّـهَ يُسْمِعُ مَن يَشَاءُ وَمَا أَنتَ بِمُسْمِعٍ مَّن فِي الْقُبُورِ إِنْ أَنتَ إِلَّا نَذِيرٌ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ بِالْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَإِن مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ» [35-فاطر:19-24] ‏‏‏‏ ” اندھا اور دیکھنے والا برابر نہیں، اندھیرا اور اُجالا برابر نہیں، سایہ اور دھوپ برابر نہیں، زندہ اور مردہ برابر نہیں۔ اللہ تو جسے چاہے سنا سکتا ہے تو قبر والوں کو سنا نہیں سکتا۔ تو تو صرف آ گاہ کر دینے والا ہے۔ ہم نے تجھے حق کے ساتھ خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے، ہر ہر امت میں ڈرانے والا ہو چکا ہے “۔