قرآن مجيد

سورة هود
أَفَمَنْ كَانَ عَلَى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ وَيَتْلُوهُ شَاهِدٌ مِنْهُ وَمِنْ قَبْلِهِ كِتَابُ مُوسَى إِمَامًا وَرَحْمَةً أُولَئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ وَمَنْ يَكْفُرْ بِهِ مِنَ الْأَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهُ فَلَا تَكُ فِي مِرْيَةٍ مِنْهُ إِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكَ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُونَ[17]
تو کیا وہ شخص جو اپنے رب کی طرف سے ایک واضح دلیل پر ہو اور اس کی طرف سے ایک گواہ اس کی تائید کر رہا ہو اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب بھی جو امام اور رحمت تھی، یہ لوگ اس پر ایمان لاتے ہیں۔ اور گروہوں میں سے جو اس کا انکار کرے تو آگ ہی اس کے وعدے کی جگہ ہے۔ سو تو اس کے بارے میں کسی شک میں نہ رہ، یقینا یہی تیرے رب کی طرف سے حق ہے اور لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے۔[17]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 17،

مومن کون ہیں؟ ٭٭

ان مومنوں کا وصف بیان ہو رہا ہے جو فطرت پر قائم ہیں جو اللہ کی وحدانیت کو دل سے مانتے ہیں۔ جیسے حکم الٰہی ہے کہ «فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا فِطْرَتَ اللَّـهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّـهِ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ» [30-الروم:30] ‏‏‏‏ ” اپنا منہ دین حنیف پر قائم کر دے اللہ کی فطرت جس پر اس نے انسانی فطرت پیدا کی ہے “۔

بخاری و مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا لیتے ہیں جیسے کہ جانوروں کے بچے صحیح سالم پیدا ہوتے ہیں پھر لوگ ان کے کان کاٹ ڈالتے ہیں ۔ [صحیح بخاری:1381] ‏‏‏‏

مسلم شریف کی حدیث قدسی میں ہے میں نے اپنے تمام بندوں کو موحد پیدا کیا ہے لیکن پھر شیطان آ کر انہیں ان کے دین سے بہکا دیتا ہے اور میری حلال کردہ چیزیں ان پر حرام کر دیتا ہے اور انہیں کہتا ہے کہ میرے ساتھ انہیں شریک کریں جن کی کوئی دلیل میں نے نہیں اتاری ۔ [صحیح مسلم:2865] ‏‏‏‏

مسند اور سنن میں ہے کہ ہر بچہ اسی ملت پر پیدا ہوتا ہے یہاں تک کہ اس کی زبان کھلے ۔ [سلسلة احادیث صحیحه البانی:402/1:صحیح] ‏‏‏‏

پس مومن فطرت رب پر ہی باقی رہا ہے۔ پس ایک تو فطرت اس کی صحیح سالم ہوتی ہے پھر اس کے پاس اللہ کا شاہد آتا ہے یعنی اللہ کی شریعت پیغمبر کے ذریعے پہنچتی ہے جو شریعت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے ساتھ ختم ہوئی۔ پس شاہد سے مراد جبرائیل علیہ السلام ہیں، محمد صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ کی رسالت اولاً جبرائیل علیہ السلام لائے اور آپ کے واسطے سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔ ایک قول میں کہا گیا ہے کہ وہ علی رضی اللہ عنہ ہیں لیکن وہ قول ضعیف ہے۔ اس کا کوئی قائل ثابت ہی نہیں۔

حق بات پہلی ہی ہے۔ پس مومن کی فطرت اللہ کی وحی سے مل جاتی ہے۔ اجمالی طور پر اسے پہلے سے ہی یقین ہوتا ہے، پھر شریعت کی تفصیلات کو مان لیتا ہے۔ اس کی فطرت ایک ایک مسئلے کی تصدیق کرتی جاتی ہے۔ پس فطرت سلیم، اس کے ساتھ قرآن کی تعلیم، جسے جبرائیل علیہ السلام نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو۔

پھر اس سے پہلے کی ایک اور تائید بھی موجود ہے، وہ کتاب موسیٰ علیہ السلام یعنی تورات جسے اللہ نے اس زمانے کی امت کے لیے پیشوائی کے قابل بنا کر بھیجی تھی اور جو اللہ کی طرف سے رحمت تھی اس پر جن کا پورا ایمان ہے وہ لامحالہ اس نبی علیہ السلام اور اس کتاب پر بھی ایمان لاتے ہیں کیونکہ اس کتاب نے اس کتاب پر ایمان لانے کی رہنمائی کی ہے۔ پس یہ لوگ اس کتاب پر بھی ایمان لاتے ہیں۔

پھر پورے قرآن کو یا اس کے کسی حصے کو نہ ماننے والوں کی سزا کا بیان فرمایا کہ ” دنیا والوں میں سے جو گروہ جو فرقہ اسے نہ مانے خواہ یہودی ہو، خواہ نصرانی کہیں کا ہو، کوئی ہو، کسی رنگت اور شکل و صورت کا ہو، قرآن پہنچا اور نہ مانا وہ جہنمی ہے “۔

جیسے رب العالمین نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی اسی قرآن کریم میں فرمایا ہے، «لِأُنذِرَكُم بِهِ وَمَن بَلَغَ» [6-الأنعام:19] ‏‏‏‏ کہ ” میں اس سے تمہیں بھی آگاہ کر رہا ہوں اور انہیں بھی جنہیں یہ پہنچ جائے “۔

اور آیت میں ہے «قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّـهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا» [7-الأعراف:158] ‏‏‏‏ ” لوگوں میں اعلان کر دو کہ اے انسانو! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں “۔

صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ «صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَسْلِیْماً» فرماتے ہیں اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اس امت میں سے جو بھی مجھے سن لے اور پھر مجھ پر ایمان نہ لائے وہ جہنمی ہے ۔ [صحیح مسلم:153] ‏‏‏‏

سیدنا سعید بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں جو صحیح حدیث سنتا ہوں اس کی تصدیق کتاب اللہ میں ضرور پاتا ہوں۔ مندرجہ بالا حدیث سن کر میں اس تلاش میں لگا کہ اس کی تصدیق قرآن کی کسی آیت سے ہوتی ہے تو مجھے یہ آیت ملی پس تمام دین والے اس سے مراد ہیں۔‏‏‏‏ [تفسیر ابن جریر الطبری:18087:صحیح] ‏‏‏‏

پھر جناب باری ارشاد فرماتا ہے کہ ” اس قرآن کے اللہ کی طرف سے سراسر حق ہونے میں تجھے کوئی شک و شبہ نہ کرنا چاہیئے “۔

جیسے ارشاد ہے کہ «الم تَنزِيلُ الْكِتَابِ لَا رَيْبَ فِيهِ مِن رَّبِّ الْعَالَمِينَ» ” اس کتاب کے رب العالمین کی طرف سے نازل شدہ ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں “ [32-السجدة:1-2] ‏‏‏‏ اور جگہ ہے «الم ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ» [2-البقرة:2-1] ‏‏‏‏ ” اس کتاب میں کوئی شک نہیں “۔

پھر ارشاد ہے کہ ” اکثر لوگ ایمان سے کورے ہوتے ہیں “، جیسے فرمان ہے «وَمَا أَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِينَ» [12-یوسف:103] ‏‏‏‏ یعنی ” گو تیری چاہت ہو لیکن یقین کر لے کہ اکثر لوگ مومن نہیں ہونگے “۔

اور آیت میں ہے «وَاِنْ تُطِعْ اَكْثَرَ مَنْ فِي الْاَرْضِ يُضِلُّوْكَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۭ اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنْ هُمْ اِلَّا يَخْرُصُوْنَ» [6-الأنعام:116] ‏‏‏‏ ” اگر تو دنیا والوں کی اکثریت کی پیروی کرے گا تو وہ تو تجھے راہ حق سے بھٹکا دیں گے “۔

اور آیت میں ہے «وَلَقَدْ صَدَّقَ عَلَيْهِمْ اِبْلِيْسُ ظَنَّهٗ فَاتَّبَعُوْهُ اِلَّا فَرِيْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ» [34-سبأ:20] ‏‏‏‏ یعنی ” ان پر ابلیس نے اپنا گمان سچ کر دکھایا اور سوائے مومنوں کی ایک مختصر سی جماعت کے باقی سب اسی کے پیچھے لگ گئے “۔