قرآن مجيد

سورة هود
وَلَئِنْ أَخَّرْنَا عَنْهُمُ الْعَذَابَ إِلَى أُمَّةٍ مَعْدُودَةٍ لَيَقُولُنَّ مَا يَحْبِسُهُ أَلَا يَوْمَ يَأْتِيهِمْ لَيْسَ مَصْرُوفًا عَنْهُمْ وَحَاقَ بِهِمْ مَا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ[8]
اور بلاشبہ اگر ہم ان سے عذاب کو ایک گنی ہوئی مدت تک مؤخر کر دیں تو یقینا ضرور کہیں گے اسے کیا چیز روک رہی ہے؟ سن لو! جس دن وہ ان پر آئے گا تو ان سے ہٹایا جانے والا نہیں اور انھیں وہ چیز گھیر لے گی جس کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے۔[8]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 7، 8،

تخلیق کائنات کا تذکرہ ٭٭

اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ ” اسے ہر چیز پر قدرت ہے۔ آسمان و زمین کو اس نے صرف چھ دن میں پیدا کیا ہے۔ اس سے پہلے اس کا عرش کریم پانی کے اوپر تھا “۔

مسند احمد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے بنو تمیم! تم خوشخبری قبول کرو۔‏‏‏‏ انہوں نے کہا خوشخبریاں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا دیں اب کچھ دلوائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اہل یمن تم قبول کرو۔‏‏‏‏ انہوں نے کہا ہاں ہمیں قبول ہے۔ مخلوق کی ابتداء تو ہمیں سنائیے کہ کس طرح ہوئی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے پہلے اللہ تھا۔ اس کا عرش پانی کے اوپر تھا۔‏‏‏‏ اس نے لوح محفوظ میں ہر چیز کا تذکرہ لکھا راوی حدیث سیدنا عمران رضی اللہ عنہ کہتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنا ہی فرمایا تھا جو کسی نے آن کر مجھے خبر دی کہ تیری اونٹنی زانو کھلوا کر بھاگ گئی، میں اسے ڈھونڈنے چلا گیا۔ پھر مجھے نہیں معلوم کہ کیا بات ہوئی؟ یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی ہے۔ [صحیح بخاری:3191] ‏‏‏‏

ایک روایت میں ہے اللہ تھا اور اس سے پہلے کچھ نہ تھا ۔ [صحیح بخاری:3191] ‏‏‏‏ ایک روایت میں ہے اس کے ساتھ کچھ نہ تھا۔ اس کا عرش پانی پر تھا۔ اس نے ہرچیز کا تذکرہ لکھا۔ پھر آسمان و زمین کو پیدا کیا ۔ [صحیح بخاری:3191] ‏‏‏‏

مسلم کی حدیث میں ہے زمین و آسمان کی پیدائش سے پچاس ہزار سال پہلے اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کی تقدیر لکھی اس کا عرش پانی پر تھا ۔ [صحیح مسلم:2653] ‏‏‏‏

صحیح بخاری میں اس آیت کی تفسیر کے موقع پر ایک قدسی حدیث لائے ہیں کہ اے انسان! تو میری راہ میں خرچ کر میں تجھے دوں گا اور فرمایا ” اللہ کا ہاتھ اوپر ہے “۔ دن رات کا خرچ اس میں کوئی کمی نہیں لاتا۔ خیال تو کرو کہ آسمان و زمین کی پیدائش سے اب تک کتنا کچھ خرچ کیا ہو گا لیکن اس کے داہنے ہاتھ میں جو تھا وہ کم نہیں ہوتا اس کا عرش پانی پر تھا۔ اس کے ہاتھ میں میزان ہے جھکاتا ہے اور اونچا کرتا ہے [صحیح بخاری:4684] ‏‏‏‏

مسند میں ہے ابورزین لقیط بن عامر بن متفق عقیلی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ مخلوق پیدائش کرنے سے پہلے ہمارا پروردگار کہاں تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عما میں نیچے بھی ہوا اور اوپر بھی ہوا پھر عرش کو اس کے بعد پیدا کیا ۔ [سنن ترمذي:3109،قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏ یہ روایت ترمذی کتاب التفسیر میں بھی ہے۔ سنن ابن ماجہ میں بھی ہے۔

امام ترمذی اسے حسن کہتے ہیں۔ مجاہد رحمہ اللہ کا قول ہے کہ کسی چیز کو پیدا کرنے سے پہلے عرش الٰہی پانی پر تھا۔‏‏‏‏ وہب، ضمرہ، قتادہ، ابن جریر رحمہ اللہ علیہم وغیرہ بھی یہی کہتے ہیں۔ قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ بتاتا ہے کہ آسمان و زمین کی پیدائش سے پہلے ابتداء مخلوق کس طرح ہوئی۔‏‏‏‏

ربیع بن انس کہتے ہیں کہ اس کا عرش پانی پر تھا۔ جب آسمان و زمین کو پیدا کیا تو اس پانی کے دوحصے کر دیئے۔ نصف عرش کے نیچے یہی بحر مسجود ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں بوجہ بلندی کے عرش کو عرش کہا جاتا ہے۔‏‏‏‏ سعد طائی فرماتے ہیں کہ عرش سرخ یاقوت کا ہے۔‏‏‏‏

محمد بن اسحاق فرماتے ہیں اللہ اسی طرح تھا جس طرح اس نے اپنے نفس کریم کا وصف کیا۔ اس لیے کہ کچھ نہ تھا، پانی تھا، اس پر عرش تھا، عرش پر «ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ، وَالْعِزَّةِ وَالسُّلْطَانِ، وَالْمُلْكِ وَالْقُدْرَةِ، وَالْحِلْمِ وَالْعِلْمِ، وَالرَّحْمَةِ وَالنِّعْمَةِ، الْفَعَّالُ لِمَا يُرِيدُ» تھا جو جو چاہے کر گزرنے والا ہے۔‏‏‏‏

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس آیت کے بارے میں سوال ہوا کہ پانی کس چیز پر تھا؟ آپ نے فرمایا ہوا کی پیٹھ پر۔‏‏‏‏

پھر فرماتا ہے، ” آسمان و زمین کی پیدائش تمہارے نفع کے لیے ہے اور تم اس لیے ہو کہ اسی ایک خالق کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ یاد رکھو تم بے کار پیدا نہیں کئے گئے۔ آسمان و زمین اور ان کے درمیان چیزیں باطل پیدا نہیں کیں یہ گمان تو کافروں کا ہے اور کافروں کے لیے آگ کا عذاب “۔

اور آیت میں ہے «اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّاَنَّكُمْ اِلَيْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ فَتَعَالَى اللَّـهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ» [23-المؤمنون:116، 115] ‏‏‏‏ ” کیا تم یہ سمجھ بیٹھے ہو کہ ہم نے تمہیں عبث پیدا کیا ہے اور تم ہماری طرف لوٹائے نہ جاؤ گے؟ اللہ جو سچا مالک ہے وہی حق ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ عرش کریم کا رب ہے “۔

اور آیت میں ہے «وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ» [51-الذاريات:56] ‏‏‏‏ ” انسانوں اور جنوں کو میں نے صرف اپنی عبادت کے لیے ہی پیدا کیا ہے وہ تمہیں آزما رہے ہیں کہ تم میں سے اچھے عمل والے کون ہیں؟ “

یہ نہیں فرمایا کہ زیادہ عمل والے کون ہیں؟ اس لیے کہ عمل حسن وہ ہوتا ہے جس میں خلوص ہو اور شریعت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری ہو۔ ان دونوں باتوں میں سے اگر ایک بھی نہ ہو تو وہ عمل بے کار اور غارت ہے۔

پھر فرماتا ہے کہ ” اے نبی! اگر آپ انہیں کہیں کہ تم مرنے کے بعد زندہ کئے جاؤ گے جس اللہ نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا ہے وہ دوبارہ بھی پیدا کرے گا تو صاف کہہ دیں گے کہ ہم اسے نہیں مانتے حالانکہ قائل بھی ہیں کہ زمین آسمان کا پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے “۔

ظاہر ہے کہ شروع جس پر گراں نہ گزرا۔ اس پر دوبارہ کی پیدائش کیسے گراں گزرے گی؟ یہ توبہ نسبت اول مرتبہ کے بہت ہی آسان ہے۔

فرمان الٰہی ہے «وَهُوَ الَّذِيْ يَبْدَؤُا الْخَــلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُهٗ وَهُوَ اَهْوَنُ عَلَيْهِ وَلَهُ الْمَثَلُ الْاَعْلٰى فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ» [30-الروم:27] ‏‏‏‏ ” اسی نے پہلی پیدائش شروع میں کی وہی دوبارہ پیدائش کرے گا اور یہ تو اس پر نہایت ہی آسان ہے “۔

اور آیت میں ہے کہ «مَا خَلْقُكُمْ وَلَا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ وَاحِدَةٍ» [31-لقمان:28] ‏‏‏‏ ” تم سب کا بنانا اور مار کر زندہ کرنا مجھ پر ایسا ہی ہے جیسا ایک کا “۔

لیکن یہ لوگ اسے نہیں مانتے تھے اور اسے کھلے جادو سے تعبیر کرتے تھے۔ کفر و عناد سے اس قول کو جادو کا اثر خیال کرتے۔

پھر فرماتا ہے کہ ” اگر ہم عذاب و پکڑ کو ان سے کچھ مقرر مدت تک کے لیے مؤخر کر دیں تو یہ اس کو نہ آنے والا جان کر جلدی کا مطالبہ کرنے لگتے ہیں کہ عذاب ہم سے مؤخر کیوں ہو گئے؟ ان کے دل میں کفر و شرک اس طرح بیٹھ گیا ہے کہ اس سے چھٹکارا ہی نہیں ملتا “۔

امت کا لفظ قرآن و حدیث میں کئی ایک معنی میں مستعمل ہے۔ اس سے مراد مدت بھی ہے اس آیت اور «وَقَالَ الَّذِيْ نَجَا مِنْهُمَا وَادَّكَرَ بَعْدَ اُمَّةٍ اَنَا اُنَبِّئُكُمْ بِتَاْوِيْـلِهٖ فَاَرْسِلُوْنِ» [12-یوسف:45] ‏‏‏‏ جو سورۃ یوسف میں ہے یہی معنی ہیں۔ امام و مقتدی کے معنی میں بھی یہ لفظ آیا ہے۔

جیسے ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں «اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّٰهِ حَنِيْفًا وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ» رضی اللہ عنہ [16-النحل:120] ‏‏‏‏ آیا ہے۔ ملت اور دین کے بارے میں بھی یہی لفظ آتا ہے جیسے «إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَى أُمَّةٍ وَإِنَّا عَلَى آثَارِهِمْ مُقْتَدُونَ» [43-الزخرف:23] ‏‏‏‏ ہے جماعت کے معنی میں بھی آتا ہے «وَجَدَ عَلَيْهِ اُمَّةً مِّنَ النَّاسِ يَسْقُوْنَ وَوَجَدَ مِنْ دُوْنِهِمُ امْرَاَتَيْنِ» [28-القص:23] ‏‏‏‏ والی آیت میں اور آیت «وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَاجْتَنِبُوا» [16-النحل:36] ‏‏‏‏ میں اور آیت «وَلِكُلِّ أُمَّةٍ رَسُولٌ فَإِذَا جَاءَ رَسُولُهُمْ قُضِيَ بَيْنَهُمْ بِالْقِسْطِ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ» [10-يونس:47] ‏‏‏‏ ان آیتوں میں امت سے مراد کافر مومن سب امتی ہیں۔

جیسے مسلم کی حدیث ہے اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس امت کا جو یہودی نصرانی میرا نام سنے اور مجھ پر ایمان نہ لائے وہ جہنمی ہے ۔ [صحیح مسلم:153] ‏‏‏‏ ہاں تابعدار امت وہ ہے جو رسولوں کو مانے۔

جیسے «كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ للنَّاسِ» [3-آل عمران:110] ‏‏‏‏ والی آیت میں۔

صحیح حدیث میں ہے میں کہوں گا «أُمَّتِي أُمَّتِي» ۔ [صحیح بخاری:7510] ‏‏‏‏

اسی طرح امت کا لفظ فرقے اور گروہ کے لیے بھی مستعمل ہوتا ہے جیسے «وَمِنْ قَوْمِ مُوْسٰٓي اُمَّةٌ يَّهْدُوْنَ بالْحَقِّ وَبِهٖ يَعْدِلُوْنَ» [7-الأعراف:159] ‏‏‏‏ اور جیسے «مِنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ اُمَّةٌ قَاىِٕمَةٌ يَّتْلُوْنَ اٰيٰتِ اللّٰهِ اٰنَاءَ الَّيْلِ وَھُمْ يَسْجُدُوْنَ» [3-آل عمران:113] ‏‏‏‏ میں۔