سن لو! بلاشبہ وہ اپنے سینوں کو موڑتے ہیں، تاکہ اس سے اچھی طرح چھپے رہیں، سن لو! جب وہ اپنے کپڑے اچھی طرح لپیٹ لیتے ہیں وہ جانتا ہے جو کچھ وہ چھپاتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں۔ بے شک وہ سینوں والی بات کو خوب جاننے والا ہے۔[5]
اندھیروں کی چادروں میں موجود ہر چیز کو دیکھتا ہے ٭٭
ابن عباس رضی اللہ عنہما کی قرآت میں «تَـثْـنُـوْنـِیْ» ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”کچھ لوگ اس میں حیاء کرتے تھے کہ کھلی ہوئی جگہ میں حاجت کے لیے بیٹھنے میں، آسمان کی طرف ستر کھولنے میں، اس طرح صحبت کرتے وقت آسمان کی طرف کھولنے میں پروردگار سے شرماتے۔“ [صحیح بخاری:4681]
وہ اپنے سروں کو ڈھاپ لیتے اور یہ بھی مراد ہے کہ وہ اللہ کے بارے میں شک کرتے تھے اور کام برائی کے کرتے تھے۔ کہتے ہیں کہ ”برے کام یا برے عمل کے وقت وہ جھک جھک کر اپنے سینے دوہرے کر ڈالتے گویا کہ وہ اللہ سے شرما رہے ہیں، اور اس سے چھپ رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ” راتوں کو کپڑے اوڑھے ہوئے بھی جو تم کرتے ہو اس سے بھی اللہ تو خبردار ہے۔ جو چھپاؤ جو کھولو، جو دلوں اور سینوں میں رکھو، وہ سب کو جانتا ہے، دل کے بھید سینے کے راز اور ہر ایک پوشیدگی اس پر ظاہر ہے “۔
زہیر بن ابوسلمہ اپنے مشہور معلقہ میں کہتا ہے کہ ”تمہارے دلوں کی کوئی بات اللہ تعالیٰ پر چھپی ہوئی نہیں، تم گو کسی خیال میں ہو لیکن یاد رکھو کہ اللہ سب کچھ جانتا ہے۔ ممکن ہے کہ تمہارے بد خیالات پر وہ تمہیں یہیں سزا کرے اور ہو سکتا ہے کہ وہ نامہ اعمال میں لکھ لیے جائیں اور قیامت کے دن پیش کئے جائیں“ یہ جاہلیت کا شاعر ہے۔ اسے اللہ کا، اس کے کامل علم کا، قیامت کا اور اس دن کی جزا سزا کا، اعمال نامے کا اور قیامت کے دن اس کے پیش ہونے کا اقرار ہے۔
اس آیت کا ایک مطلب یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ ” یہ لوگ جب رسول مقبول صلی اللہ علیہ وعلیہ وسلم کے پاس سے گزرتے تو سینہ موڑ لیتے اور سر ڈھانپ لیتے “۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:17953:مرسل]
آیت میں «لِيَسْتَخْفُوا مِنْهُ» ہے، اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ سے چھپنا چاہتے ہیں یہی اولیٰ ہے کیونکہ اسی کے بعد ہے کہ جب یہ لوگ سوتے وقت کپڑے اوڑھ لیتے ہیں اس وقت بھی اللہ تعالیٰ کو ان کے تمام افعال کا جو وہ چھپ کر کریں اور جو ظاہر کریں علم ہوتا ہے
۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی قرأت میں «أَلَا إِنِّهُمْ تَثْنُونِي صُدُورُهُمْ» ہے۔ اس قرأت پر بھی معنی تقریباً یکساں ہیں۔