قرآن مجيد

سورة البقرة
أَمْ تَقُولُونَ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطَ كَانُوا هُودًا أَوْ نَصَارَى قُلْ أَأَنْتُمْ أَعْلَمُ أَمِ اللَّهُ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهَادَةً عِنْدَهُ مِنَ اللَّهِ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ[140]
یا تم کہتے ہو کہ ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور ان کی اولاد یہودی تھے یا عیسائی؟ کہہ دے کیا تم زیادہ جاننے والے ہو یا اللہ؟ اور اس سے زیادہ ظالم کون ہے جس نے وہ شہادت چھپالی جو اس کے پاس اللہ کی طرف سے تھی اور اللہ ہرگز اس سے غافل نہیں جو تم کرتے ہو۔[140]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 139، 140،

مشرکین کے اعمال پر بیزاری ٭٭

مشرکوں کے جھگڑے کو دفع کرنے کا حکم رب العالمین اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دے رہا ہے کہ تم ہم سے اللہ کی توحید، اخلاص، اطاعت وغیرہ کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو؟ وہ صرف ہمارا ہی نہیں بلکہ تمہارا رب بھی تو ہے، ہم پر اور تم پر قابض و متصرف بھی وہی اکیلا ہے۔ ہمارے عمل ہمارے ساتھ ہیں وہ تمہارے عمل تمہیں کام آئیں گے، ہم تم سے اور تمہارے شرک سے بیزار ہیں اور جگہ فرمایا آیت «وَإِن كَذَّبُوكَ فَقُل لِّي عَمَلِي وَلَكُمْ عَمَلُكُمْ أَنتُم بَرِيئُونَ مِمَّا أَعْمَلُ وَأَنَا بَرِيءٌ مِّمَّا تَعْمَلُونَ» الخ یعنی اگر یہ تجھے جھٹلائیں تو تو کہہ دے کہ میرے لیے میرا عمل ہے اور تمہارے لیے تمہارا عمل ہے تم میرے [ نیک ] ‏‏‏‏ کام سے اور میں تمہارے اعمال سے بیزار ہوں۔ اور جگہ ارشاد ہے آیت «حَاجُّوْكَ فَقُلْ اَسْلَمْتُ وَجْهِيَ لِلّٰهِ وَمَنِ اتَّبَعَنِ» [ 3۔ آل عمران: 20 ] ‏‏‏‏ اگر یہ تجھ سے جھگڑیں تو تو کہہ دے میں نے اور میرے ماننے والوں نے اپنے منہ اللہ کی طرف کر دئیے۔ ابراہیم علیہ السلام نے بھی اپنی قوم سے یہی فرمایا تھا آیت «وَحَاجَّهُ قَوْمُهُ قَالَ أَتُحَاجُّونِّي فِي اللَّـهِ وَقَدْ هَدَانِ وَلَا أَخَافُ مَا تُشْرِكُونَ بِهِ إِلَّا أَن يَشَاءَ رَبِّي شَيْئًا وَسِعَ رَبِّي كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا أَفَلَا تَتَذَكَّرُونَ» [ 6۔ الانعام: 80 ] ‏‏‏‏ کیا تم اللہ کے بارے میں مجھ سے اختلاف کرتے ہو؟ اور جگہ ہے؟ آیت «اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْ حَاجَّ اِبْرٰھٖمَ فِيْ رَبِّهٖٓ اَنْ اٰتٰىهُ اللّٰهُ الْمُلْكَ» [ 2۔ البقرہ: 258 ] ‏‏‏‏ تو نے اسے بھی دیکھا جو ابراہیم [ علیہ السلام ] ‏‏‏‏ سے اس کے رب کے بارے میں جھگڑنے لگا۔


پس یہاں ان جھگڑالو لوگوں سے کہا گیا کہ ہمارے اعمال ہمارے لیے اور تمہارے اعمال تمہارے لیے۔ ہم تم سے الگ۔ ہم عبادت اور توجہ میں اخلاص اور یکسوئی کرنے والے لوگ ہیں۔ پھر ان لوگوں کے دعوے کی تردید ہو رہی ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نہ تو یہودی، نہ نصرانی، تم اے یہودیو اور اے نصرانیو کیوں یہ باتیں بنا رہے ہو؟ کیا تمہارا علم اللہ سے بھی بڑھ گیا ہے اللہ نے تو صاف فرما دیا آیت «مَا كَانَ اِبْرٰهِيْمُ يَهُوْدِيًّا وَّلَا نَصْرَانِيًّا وَّلٰكِنْ كَانَ حَنِيْفًا مُّسْلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ» [ 3۔ آل عمران: 67 ] ‏‏‏‏ ابراہیم علیہ السلام نہ تو یہودی تھے، نہ نصرانی، نہ مشرک، بلکہ خالص مسلمان تھے، ان کا حق کی شہادت کو چھپا کر بڑا ظلم کرنا یہ تھا کہ اللہ کی کتاب جو اس کے پاس آئی اس میں انہوں نے پڑھا کہ حقیقی دین اسلام ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے رسول ہیں۔ ابراہیم، اسمٰعیل، اسحاق، یعقوب علیہم السلام وغیرہ یہودیت اور نصرانیت سے الگ تھے لیکن پھر نہ مانا اور اتنا ہی نہیں بلکہ اس بات کو بھی چھپا دیا۔