قرآن مجيد

سورة يونس
وَلَوْ جَاءَتْهُمْ كُلُّ آيَةٍ حَتَّى يَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِيمَ[97]
خواہ ان کے پاس ہر نشانی آجائے، یہاں تک کہ دردناک عذاب دیکھ لیں۔[97]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 94، 95، 96، 97،

ٹھوس دلائل کے باوجود انکار قابل مذمت ہے ٭٭

جب یہ آیت اتری تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہ مجھے کچھ شک نہ مجھے کسی سے پوچھنے کی ضرورت ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:17907:مرسل] ‏‏‏‏۔

پس اس آیت سے مطلب صرف اتنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے ایمان کی مضبوطی کی جائے اور ان سے بیان کیا جائے کہ اگلی الٰہامی کتابوں میں بھی ان کے نبی کی صفتیں موجود ہیں، خود اہل کتاب بھی بخوبی واقف ہیں۔

جیسے «الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ» [7-الأعراف:157] ‏‏‏‏ الخ میں ہے۔

ان لوگوں پر تعجب اور افسوس ہے ان کی کتابوں میں اس نبی آخر الزمان کی تعریف و توصیف اور جان پہچان ہونے کے باوجود بھی ان کتابوں کے احکام کا خلط ملط کرتے ہیں اور تحریف و تبدیل کر کے بات بدل دیتے ہیں اور دلیل سامنے ہونے کے باوجود انکاری رہتے ہیں۔ شک و شبہ کی ممانعت کے بعد آیات رب کی تکذیب کی ممانعت ہوئی۔ پھر بدقسمت لوگوں کے ایمان سے ناامیدی دلائی گئی۔ جب تک کہ وہ عذاب نہ دیکھ لیں ایمان نہیں لائیں گے۔ یہ تو اس وقت ایمان لائیں گے جس وقت ایمان لانا بے سود ہوگا۔

موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کے لیے اور فرعونیوں کے لیے یہی بد دعا کی تھی «رَبَّنَا اطْمِسْ عَلَىٰ أَمْوَالِهِمْ وَاشْدُدْ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُوا حَتَّىٰ يَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِيمَ» [10-یونس:88] ‏‏‏‏ ” اے ہمارے رب! ان کے مالوں کو نیست و نابود کر دے اور ان کے دلوں کو سخت کر دے سو یہ ایمان نہ لانے پائیں یہاں تک کہ درد ناک عذاب کو دیکھ لیں“۔

«وَلَوْ أَنَّنَا نَزَّلْنَا إِلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةَ وَكَلَّمَهُمُ الْمَوْتَىٰ وَحَشَرْنَا عَلَيْهِمْ كُلَّ شَيْءٍ قُبُلًا مَّا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّـهُ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ يَجْهَلُونَ» [6-الأنعام:111] ‏‏‏‏ ” ان کی جہالت اس درجے پر پہنچ چکی ہے کہ بالفرض ہم اپنے فرشتوں کو ان پر اتاریں، مردے ان سے بولیں ہر پوشیدہ چیز سامنے آ جائے جب بھی انہیں ایمان نصیب نہیں ہو گا ہاں مرضی مولیٰ اور چیز ہے “۔