قرآن مجيد

سورة البقرة
وَقَالُوا كُونُوا هُودًا أَوْ نَصَارَى تَهْتَدُوا قُلْ بَلْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ[135]
اور انھوں نے کہا یہودی ہو جائو، یا نصرانی ہدایت پا جائو گے، کہہ دے بلکہ (ہم) ابراہیم کی ملت (کی پیروی کریں گے) جو ایک اللہ کا ہونے والا تھا اور مشرکوں سے نہ تھا۔[135]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 135،

ملتِ ابراھیمی اللہ کے راستے پر ہیں ٭٭

عبداللہ بن صوریا اعور نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا کہ ہدایت پر ہم ہیں تم ہماری مانو تو تمہیں بھی ہدایت ملے گی۔ نصرانیوں نے بھی یہی کہا تھا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ [تفسیر ابن ابی حاتم:396/1] ‏‏‏‏ کہ ہم تو ابراہیم حنیف علیہ السلام کے متبع ہیں جو استقامت والے، اخلاص والے، حج والے، بیت اللہ کی طرف منہ کرنے والے، استطاعت کے وقت حج کو فرض جاننے والے، اللہ کی فرمانبرداری کرنے والے، تمام رسولوں پر ایمان لانے والے لا الہٰ الا اللہ کی شہادت دینے والے، ماں بیٹی خالہ پھوپھی کو حرام جاننے والے اور تمام حرام کاریوں سے بچنے والے تھے۔ حنیف کے یہ سب معنی مختلف حضرات نے بیان کئے ہیں۔ [تفسیر ابن ابی حاتم:397/1] ‏‏‏‏