قرآن مجيد

سورة يونس
وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَمَّا ظَلَمُوا وَجَاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ وَمَا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا كَذَلِكَ نَجْزِي الْقَوْمَ الْمُجْرِمِينَ[13]
اور بلاشبہ یقینا ہم نے تم سے پہلے بہت سے زمانوں کے لوگ ہلاک کر دیے، جب انھوں نے ظلم کیا اور ان کے پاس ان کے رسول واضح دلیلیں لے کر آئے اور وہ ہرگز ایسے نہ تھے کہ ایمان لاتے۔ اسی طرح ہم مجرم لوگوں کو جزا دیا کرتے ہیں۔[13]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 13، 14،

باب

اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ ” سابقہ اقوام پر تکذیب رسول کی وجہ سے عذاب آئے تہس نہس ہوگئے۔ اب تم ان کے قائم مقام ہو اور تمہارے پاس بھی افضل الرسل صلی اللہ علیہ وسلم آچکے ہیں، اللہ دیکھ رہا ہے کہ تمہارے اعمال کی کیا کیفیت رہتی ہے؟ “

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں دنیا میٹھی، مزے کی، سبز رنگ والی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس میں تمہیں خلیفہ بنا کر دیکھ رہا ہے کہ تم کیسے اعمال کرتے ہو؟ دنیا سے ہوشیار رہو، اور عورتوں سے ہوشیار رہو، بنی اسرائیل میں سب سے پہلا فتنہ عورتوں کا ہی آیا تھا ۔ [صحیح مسلم:2742] ‏‏‏‏

سیدنا عوف بن مالک رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ گویا آسمان سے ایک رسی لٹکائی گئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اسے مکمل تھام لیا، پھر لٹکائی گئی تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی اسی طرح اسے مضبوطی سے تھام لیا۔ پھر منبر کے اردگرد لوگوں نے ماپنا شروع کیا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ تین ذراع بڑھ گئے۔

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ خواب سن کر فرمایا بس ہٹاؤ بھی، ہمیں خوابوں کیا حاجت؟ پھر اپنی خلافت کے زمانے میں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا عوف تمہارا خواب کیا تھا؟ سیدنا عوف رضی اللہ عنہ نے کہا جانے دیجئیے۔ جب آپ رضی اللہ عنہ کو اس کی ضرورت ہی نہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے جب مجھے ڈانٹ دیا پھر اب کیوں پوچھتے ہیں؟

آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس وقت تو تم خلیفۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی موت کی خبر دے رہے تھے۔ اب بیان کرو انہوں نے بیان کیا۔ تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا لوگوں کا منبر کی طرف تین ذراع پانا یہ تھا کہ ایک تو خلیفہ برحق تھا، دوسرے خلیفہ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے بالکل بے پرواہ تھا۔ تیسرا خلیفہ شہید ہے۔‏‏‏‏

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ” پھر ہم نے تمہیں خلیفہ بنایا کہ ہم تمہارے اعمال دیکھیں “۔ اے عمر رضی اللہ عنہ کی ماں کے لڑکے تو خلیفہ بنا ہوا ہے،خوب دیکھ بھال لے کہ کیا کیا عمل کر رہا ہے؟ آپ کا فرمان کہ میں اللہ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی پرواہ نہیں کرتا سے مراد ان چیزوں میں ہے جو اللہ چاہے۔ شہید ہونے سے مراد یہ ہے کہ جب عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی اس وقت مسلمان آپ رضی اللہ عنہ کے مطیع و فرمانبردار تھے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:17090:ضعیف] ‏‏‏‏