بے شک رات اور دن کے بدلنے میں اور ان چیزوں (میں) جو اللہ نے آسمانوں اور زمین میں پیدا کی ہیں، یقینا ان لوگوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں جو ڈرتے ہیں۔[6]
اس کی کمال قدرت، اس کی عظیم سلطنت کی نشانی یہ چمکیلا آفتاب ہے اور یہ روشن ماہتاب ہے۔ یہ اور ہی فن ہے اور وہ اور ہی کمال ہے۔ اس میں بڑا ہی فرق ہے۔ اس کی شعاعیں جگمگا دیں اور اس کی شعاعیں خود منور رہیں۔ دن کو آفتاب کی سلطنت رہتی ہے، رات کو ماہتاب کی جگمگاہٹ رہتی ہے، ان کی منزلیں اس نے مقرر کر رکھی ہیں۔
چاند شروع میں چھوٹا ہوتا ہے۔ چمک کم ہوتی ہے۔ رفتہ رفتہ بڑھتا ہے اور روشن بھی ہوتا ہے پھر اپنے کمال کو پہنچ کر گھٹنا شروع ہوتا ہے واپسی اگلی حالت پر آ جاتا ہے۔ ہر مہینے میں اس کا یہ ایک دور ختم ہوتا ہے نہ سورج چاند کو پکڑ لے، نہ چاند سورج کی راہ روکے، نہ دن رات پر سبقت کرے نہ رات دن سے آگے بڑھے۔ ہر ایک اپنی اپنی جگہ پابندی سے چل پھر رہا رہے۔ دور ختم کر رہا ہے۔
«وَالْقَمَرَ قَدَّرْنَـهُ مَنَازِلَ حَتَّى عَادَ كَالعُرجُونِ الْقَدِيمِ ـ لاَ الشَّمْسُ يَنبَغِى لَهَآ أَن تدْرِكَ القَمَرَ وَلاَ الَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ وَكُلٌّ فِى فَلَكٍ يَسْبَحُونَ» [36-يس:39،40] ” اور چاند کی منزلیں مقرر کر رکھی ہیں کہ وہ لوٹ کر پرانی ٹہنی کی طرح ہو جاتا ہے نہ آفتاب کی یہ مجال ہے کہ چاند کو پکڑے اور نہ رات دن پر آگے بڑھ جانے والی ہے اور سب کے سب آسمان میں تیرتے پھرتے ہیں “۔
دونوں کی گنتی سورج کی چال پر اور مہینوں کی گنتی چاند پر ہے۔ «وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْبَاناً» [6-الأنعام:96] ” اور سورج اور چاند کو حساب سے رکھا ہے “۔ یہ مخلوق عبث نہیں بلکہ بحکمت ہے۔ زمین و آسمان اور ان کے درمیان کی چیزیں باطل پیدا شدہ نہیں، یہ خیال تو کافروں کا ہے، جن کا ٹھکانا دوزخ ہے۔
«وَمَا خَلَقْنَا السَّمَآءَ وَالاٌّرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا بَـطِلاً ذَلِكَ ظَنُّ الَّذِينَ كَفَرُواْ فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ كَفَرُواْ مِنَ النَّارِ» [38-ص:27] ” اور ہم نے آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی چیزوں کو ناحق پیدا نہیں کیا یہ گمان تو کافروں کا ہے سو کافروں کے لیے خرابی ہے آگ کی “۔
” تم یہ نہ سمجھنا کہ ہم نے تمہیں یونہی پیدا کر دیا ہے اور اب تم ہمارے قبضے سے باہر ہو، یاد رکھو میں اللہ ہوں، میں مالک ہوں، میں حق ہوں، میرے سوا کسی کی کچھ چلتی نہیں، عرش کریم بھی منجملہ مخلوق کے میری ادنیٰ مخلوق ہے “۔
«أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَـكُمْ عَبَثاً وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لاَ تُرْجَعُونَ ـ فَتَعَـلَى اللَّهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ لاَ إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ» [23-المؤمنون:115،116] ” کیا تم یہ گمان کئے ہوئے ہو کہ ہم نے تمہیں یونہی بے کار پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف لوٹائے ہی نہ جاؤ گے۔ اللہ تعالیٰ سچا بادشاہ ہے وہ بڑی بلندی والا ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی بزرگ عرش کا مالک ہے “۔
” حجتیں اور دلیلیں ہم کھول کھول کر بیان فرما رہے ہیں کہ اہل علم لوگ سمجھ لیں “۔
رات دن کے رد و بدل میں، ان کے برابر جانے آنے میں رات پر دن کا آنا، دن پر رات کا چھا جانا، ایک دوسرے کے پیچھے برابر لگاتار آنا جانا اور زمین و آسمان کا پیدا ہونا اور ان کی مخلوق کا رچایا جانا یہ سب عظمت رب کی بولتی ہوئی نشانیاں ہیں۔
«يُغْشِى الَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهُ حَثِيثًا» [7-الأعراف:54] ” وہ رات سے دن ایسے طور پر چھپا دیتا ہے کہ کہ وہ رات اس دن کو جلدی سے آ لیتی ہے “۔
«لاَ الشَّمْسُ يَنبَغِى لَهَآ أَن تدْرِكَ القَمَرَ» [36-يس:40] ” نہ آفتاب کی یہ مجال ہے کہ چاند کو پکڑے “۔
«فَالِقُ الإِصْبَاحِ وَجَعَلَ الَّيْلَ سَكَناً» [6-الأنعام:96] ” وہ صبح کا نکالنے والا اس نے رات کو راحت کی چیز بنایا ہے اور سورج اور چاند کو حساب سے رکھا ہے ان سے منہ پھیر لینا کوئی عقلمندی کی دلیل نہیں یہ نشانات بھی جنہیں فائدہ نہ دیں انہیں ایمان کیسے نصیب ہو گا؟ تم اپنے آگے پیچھے اوپر نیچے بہت سی چیزیں دیکھ سکتے ہو “۔
«وَكَأَيِّن مِّن ءَايَةٍ فِى السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ» [12-يوسف:105] ” آسمانوں اور زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں “۔
«قُلِ انظُرُواْ مَاذَا فِى السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ وَمَا تُغْنِى الآيَـتُ وَالنُّذُرُ عَن قَوْمٍ لاَّ يُؤْمِنُونَ» [10-يونس:101] ” آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیجئیے کہ تم غور کرو کہ کیا کیا چیزیں آسمانوں میں اور زمین میں ہیں اور جو لوگ ایمان نہیں لاتے ان کو نشانیاں اور دھمکیاں کچھ فائدہ نہیں پہنچاتیں “۔
«أَفَلَمْ يَرَوْاْ إِلَى مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ مِّنَ السَّمَآءِ وَالاٌّرْضِ» [34-سبأ:9] ” کیا پس وہ اپنے آگے پیچھے آسمان و زمین کو دیکھ نہیں رہے ہیں؟ “، «إِنَّ فِى خَلْقِ السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ وَاخْتِلَـفِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لاّيَـتٍ لاٌّوْلِى الاٌّلْبَـبِ» [3-آل عمران:190] ” آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات دن کے ہیر پھیر میں عقلمندوں کے لیے یہ بڑی بڑی نشانیاں ہیں، کہ وہ سوچ سمجھ کر اللہ کے عذابوں سے بچ سکیں اور اس کی رحمت حاصل کر سکیں “۔