قرآن مجيد

سورة التوبة
وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِلَّ قَوْمًا بَعْدَ إِذْ هَدَاهُمْ حَتَّى يُبَيِّنَ لَهُمْ مَا يَتَّقُونَ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ[115]
اور اللہ کبھی ایسا نہیں کہ کسی قوم کو اس کے بعد گمراہ کر دے کہ انھیں ہدایت دے چکا ہو ، یہاں تک کہ ان کے لیے وہ چیزیں واضح کر دے جن سے وہ بچیں۔ بے شک اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔[115]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 115، 116،

معصیت کا تسلسل گمراہی کا بیج ہے ٭٭

اللہ تعالیٰ خبر دے رہا ہے کہ وہ کریم و عادل اللہ کسی قوم کو ہدایت کرنے کے بعد حجت پوری کئے بغیر گمراہ نہیں کرتا۔ جیسے اور جگہ ہے کہ «وَأَمَّا ثَمُودُ فَهَدَيْنَاهُمْ فَاسْتَحَبُّوا الْعَمَىٰ عَلَى الْهُدَىٰ» [ 41-فصلت: 17 ] ‏‏‏‏ ثمودیوں کو ہم نے ہدایت دی لیکن انہوں نے بینائی کے باجود اندھے پن کو ترجیح دی۔ اوپر کی آیت کی مناسبت کی وجہ سے مشرکوں کے لیے استغفار نہ کرنے کے بارے میں خاص طور پر اور اللہ تعالیٰ کی ہر معصیت کے چھوڑنے اور ہر طاعت کے بجا لانے میں عام طور پر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لیے بیان فرما چکا ہے۔ اب جو چاہے کرے، جو چاہے چھوڑے۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کرتا کہ مومنوں کو مشرک مردوں کے استغفار سے روکے بغیر ہی ان کے اس استغفار کی وجہ سے انہیں اپنے نزدیک گمراہ بنا دے۔ حالانکہ اس سے پیشتر وہ انہیں ایمان کی راہ پر لاچکا ہے۔ پس پہلے اپنی کتاب کے ذریعے انہیں اس سے روک رہا ہے۔ اب جو مان گیا اور اللہ کی ممانعت کے کام سے رک گیا اس پر اس سے پہلے کئے ہوئے کام کی وجہ سے گمراہی لازم نہیں ہو جاتی۔ اس لیے کہ طاعت و معصیت حکم و ممانعت کے بعد ہوتی ہے۔ اس سے پہلے مطیع اور عاصی ظاہر نہیں ہوتا۔ پہلے ہی ان چیزوں کو وہ ظاہر فرما دیتا ہے جس سے بچانا چاہتا ہے۔

اللہ تعالیٰ خبر دے رہا ہے کہ وہ کریم و عادل اللہ کسی قوم کو ہدایت کرنے کے بعد حجت پوری کئے بغیر گمراہ نہیں کرتا۔ جیسے اور جگہ ہے کہ ثمودیوں کو ہم نے ہدایت دی لیکن انہوں نے بینائی کے باجود اندھے پن کو ترجیح دی۔ اوپر کی آیت کی مناسبت کی وجہ سے مشرکوں کے لیے استغفار نہ کرنے کے بارے میں خاص طور پر اور اللہ تعالیٰ کی ہر معصیت کے چھوڑنے اور ہر طاعت کے بجا لانے میں عام طور پر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لیے بیان فرما چکا ہے۔ اب جو چاہے کرے، جو چاہے چھوڑے۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کرتا کہ مومنوں کو مشرک مردوں کے استغفار سے روکے بغیر ہی ان کے اس استغفار کی وجہ سے انہیں اپنے نزدیک گمراہ بنا دے۔ حالانکہ اس سے پیشتر وہ انہیں ایمان کی راہ پر لاچکا ہے۔ پس پہلے اپنی کتاب کے ذریعے انہیں اس سے روک رہا ہے۔ اب جو مان گیا اور اللہ کی ممانعت کے کام سے رک گیا اس پر اس سے پہلے کئے ہوئے کام کی وجہ سے گمراہی لازم نہیں ہو جاتی۔ اس لیے کہ طاعت و معصیت حکم و ممانعت کے بعد ہوتی ہے۔ اس سے پہلے مطیع اور عاصی ظاہر نہیں ہوتا۔ پہلے ہی ان چیزوں کو وہ ظاہر فرما دیتا ہے جس سے بچانا چاہتا ہے۔

وہ پورا باخبر اور سب سے بڑھ کر علم والا ہے۔ پھر مومنین کو مشرکین سے اور ان کے ذی اختیار بادشاہوں سے جہاد کی رغبت دلاتا ہے۔ اور انہیں اپنی مدد پر بھروسہ کرنے کو فرماتا ہے کہ زمین و آسمان کا ملک میں ہی ہوں۔ تم میرے دشمنوں سے مرعوب مت ہونا۔ کون ہے جو ان کا حمایتی بن سکے؟ اور کون ہے جو ان کی مدد پر میرے مقابلے میں آسکتا ہے؟ ابن ابی حاتم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ اپنے اصحاب کے مجمع میں بیٹھے ہوئے فرمانے لگے کیا جو میں سنتا ہوں تم بھی سن رہے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہمارے کان میں کوئی آواز نہیں آ رہی۔ آپ نے فرمایا میں آسمانوں کا چرچرانا سن رہا ہوں درحقیقت میں ان کا چرچرانا ٹھیک بھی ہے۔ ان میں ایک بالشت بھر جگہ ایسی نہیں جہاں کوئی نہ کوئی فرشتہ سجدے میں اور قیام میں نہ ہو۔ کعب احبار فرماتے ہیں ساری زمین میں سوئی کے ناکے برابر کی جگہ بھی ایسی نہیں جہاں کوئی نہ کوئی فرشتہ مقرر نہ ہو جو یہاں کا علم اللہ کی طرف نہ پہنچاتا ہو۔ آسمان کے فرشتوں کی گنتی زمین کے سنگریزوں سے بڑی ہے۔ عرش کے اٹھانے والے فرشتوں کے ٹخنے اور پنڈلی کے درمیان کا فاصلہ ایک سو سال کا ہے۔