اور بلاشبہ اگر تو ان سے پوچھے تو ضرور ہی کہیں گے ہم تو صرف شغل کی بات کر رہے تھے اور دل لگی کر رہے تھے۔ کہہ دے کیا تم اللہ اور اس کی آیات اور اس کے رسول ہی کے ساتھ مذاق کر رہے تھے؟[65]
ایک منافق کہہ رہا تھا کہ ہمارے یہ قرآن خواں لوگ بڑے پیٹو، اور بڑے فضول اور بڑے بزدل ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب اس کا ذکر ہوا تو یہ عذر پیش کرتا ہوا آیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم تو یونہی وقت گزاری کے لیے ہنس بول رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں تمہارے ہنسی کے لیے اللہ تعالیٰ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن ہی رہ گیا ہے یاد رکھو! اگر کسی کو ہم معاف کر دیں گے تو کسی کو سخت سزا بھی کریں گے“،
اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی پر سوار جا رہے تھے یہ منافق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار پر ہاتھ رکھے پتھروں سے ٹھوکریں کھاتا ہوا یہ کہتا ہوا ساتھ جا رہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف دیکھتے بھی نہ تھے جس مسلمان نے اس کا یہ قول سنا تھا اس نے اسی وقت جواب بھی دیا تھا کہ تو بکتا ہے جھوٹا ہے تو منافق ہے۔ یہ واقعہ جنگ تبوک کے موقعہ کا ہے، مسجد میں اس نے یہ ذکر کیا تھا۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:16928:مرسل]
سیرت ابن اسحاق میں ہے کہ تبوک جاتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ منافقوں کا ایک گروہ بھی تھا جن میں ودیعہ بن ثابت اور مخشی بن حمیر وغیرہ تھے۔ یہ آپس میں کہ رہے تھے کہ نصرانیوں کی لڑائی عربوں کی آپس کی لڑائی جیسی سمجھنا سخت خطرناک غلطی ہے اچھا ہے انہیں وہاں پٹنے دو پھر ہم بھی یہاں ان کی درگت بنائیں گے۔
اس پر ان کے دوسرے سردار مخشی نے کہا: ”بھئی ان باتوں کو چھوڑو ورنہ یہ ذکر پھر قرآن میں آئے گا۔ کوڑے کھا لینا ہمارے نزدیک تو اس رسوائی سے بہتر ہے“،
آگے آگے یہ لوگ یہ تذکرے کرتے جا ہی رہے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمار رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”جانا ذرا دیکھنا یہ لوگ جل گئے ان سے پوچھ تو کہ یہ کیا ذکر کر رہے تھے؟ اگر یہ انکار کریں تو تو کہنا کہ تم یہ یہ باتیں کر رہے تھے۔“
سیدنا عمار صلی اللہ علیہ وسلم نے جا کر ان سے یہ کہا یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عذر معذرت کرنے لگے اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہنسی ہنسی میں ہمارے منہ سے ایسی بات نکل گئی۔
ودیعہ نے تو یہ کہا لیکن مخشی بن حمیر نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ میرا اور میرے باپ کا نام ملاحظہ فرمائیے پس اس وجہ سے یہ لغو حرکت اور حماقت مجھ سے سرزد ہوئی معاف فرمایا جاؤں۔
پس اس سے جناب باری تعالیٰ نے درگذر فرما لیا اور اس آیت میں اسی سے درگذر فرمانے کا ذکر بھی ہوا ہے اس کے بعد اس نے اپنا نام بدل کر عبدالرحمٰن رکھا سچا مسلمان بن گیا اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ یا اللہ مجھے اپنی راہ میں شہید کرتا کہ یہ دھبہ دھل جائے چنانچہ یمامہ والے دن یہ بزرگ شہید کر دیئے گئے، اور ان کی نعش بھی نہ ملی، رضی اللہ عنہ وارضاہ۔ [سیرۃ ابن ہشام:121،122/4]
ان منافقوں نے بطور طعنہ زنی کے کہا تھا کہ لیجئے کیا آنکھیں پھٹ گئیں ہیں اب یہ چلے ہیں کہ رومیوں کے قلعے اور ان کے محلات کو فتح کریں بھلا اس عقلمندی اور دور بینی کو تو دیکھئے۔
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے ان کی ان باتوں پر مطلع کر دیا تو یہ صاف منکر ہو گئے اور قسمیں کھا کھا کر کہا کہ ہم نے یہ بات نہیں کہی ہم تو آپس میں ہنسی کھیل کر رہے تھے۔
ہاں ان میں ایک شخص تھا جسے ان شاءاللہ اللہ تعالیٰ نے معاف فرما دیا ہو گا یہ کہا کرتا تھا کہ اللہ میں تیرے پاک کلام کی ایک آیت سنتا ہوں جس میں میرے گناہ کا ذکر ہے جب بھی سنتا ہوں میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور میرا دل کپکپانے لگتا ہے، پروردگار تو میری توبہ قبول فرما اور مجھے اپنی راہ میں شہید کر اور اس طرح کہ نہ کوئی مجھے غسل دے نہ کفن دے نہ دفن کرے۔ یہی ہوا جنگ یمامہ میں یہ شہداء کے ساتھ شہید ہوئے تمام شہداء کی لاشیں مل گئیں لیکن ان کی نعش کا پتہ ہی نہ چلا۔
جناب باری تعالیٰ کی طرف سے اور منافقوں کو جواب ملا کہ اب بہانے نہ بناؤ تم گو زبانی ایماندار بنے تھے لیکن اب اسی زبان سے تم کافر ہو گئے۔ یہ قول کفر کا کلمہ ہے کہ تم نے اللہ تعالیٰ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کی ہنسی اڑائی۔ ہم اگر کسی سے درگذر بھی کر جائیں لیکن تم سب سے یہ معاملہ نہیں ہو گا تمہارے اس جرم اور اس بدترین خطا اور اس مقولہء کفر کی تمہیں سخت ترین سزا بھگتنی پڑے گی۔