یعنی جو لوگ حق کو پوشیدہ کرنے یا چھپا لینے کے عادی ہیں اور ان کی قسمت میں یہی ہے کہ انہیں نہ آپ کا ڈرانا سود مند ہے اور نہ ہی نہ ڈرانا۔ یہ کبھی اللہ تعالیٰ کی اس وحی کی تصدیق نہیں کریں گے جو آپ پر نازل ہوئی ہے۔
جیسے اور جگہ فرمایا: «إِنَّ الَّذِينَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ» * «وَلَوْ جَاءَتْهُمْ كُلُّ آيَةٍ حَتَّىٰ يَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِيمَ» [10-يونس:96-97] یعنی ”جن لوگوں پر اللہ کی بات ثابت ہو چکی ہے وہ ایمان نہ لائیں گے اگرچہ تمام آیتیں دیکھ لیں یہاں تک کہ درد ناک عذاب دیکھیں“۔
ایسے ہی سرکش اہل کتاب کی نسبت فرمایا: «وَلَىِٕنْ اَتَيْتَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ بِكُلِّ اٰيَةٍ مَّا تَبِعُوْا قِبْلَتَكَ» [2-البقرة:145] الخ یعنی ”ان اہل کتاب کے پاس اگرچہ تمام دلائل لے آؤ تاہم وہ تمہارے قبلہ کو نہیں مانیں گے“۔ یعنی ان بدنصیبوں کو سعادت حاصل ہی نہیں ہو گی۔ ان گمراہوں کو ہدایت کہاں؟ تو اے نبی ان پر افسوس نہ کر، تیرا کام صرف رسالت کا حق ادا کر دینا اور پہنچا دینا ہے۔ ماننے والے نصیب ور ہیں وہ مالا مال ہو جائیں گے اور اگر کوئی نہ مانے تو نہ سہی۔ «فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلَاغُ وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ» [13-الرعد:40] ”تیرا فرض ادا ہو گیا ہم خود ان سے حساب لے لیں گے“۔ «إِنَّمَا أَنْتَ نَذِيرٌ وَاللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ» [11-هود:12] ”تو صرف ڈرانے والا ہے، ہر چیز پر اللہ تعالیٰ ہی وکیل ہے“۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کو اس بات کی بڑی ہی حرص تھی کہ تمام لوگ ایماندار ہو جائیں اور ہدایت قبول کر لیں لیکن پروردگار نے فرمایا کہ یہ سعادت ہر ایک کے حصہ نہیں۔ یہ نعمت بٹ چکی ہے جس کے حصے میں آئی ہے وہ آپ کی مانے گا اور جو بدقسمت ہیں وہ ہرگز ہرگز اطاعت کی طرف نہیں جھکیں گے ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:253/1]
پس مطلب یہ ہے کہ جو قرآن کو تسلیم نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ ہم اگلی کتابوں کو مانتے ہیں انہیں ڈرانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس لیے کہ وہ تو خود اپنی کتاب کو بھی حقیقتاً نہیں مانتے کیونکہ اس میں تیرے ماننے کا عہد موجود ہے تو جب وہ اس کتاب کو اور اس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت کو نہیں مانتے جس کے ماننے کا اقرار کر چکے تو بھلا وہ اے نبی! تمہاری باتوں کو کیا مانیں گے؟
ابوالعالیہ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ یہ آیت جنگ احزاب کے ان سرداروں کے بارے میں اتری ہے جن کی نسبت فرمان باری ہے: «اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ كُفْرًا وَّاَحَلُّوْا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ» ۔ [14-إبراهيم:28] الخ
لیکن جو معنی ہم نے پہلے بیان کیے ہیں وہ زیادہ واضح ہیں اور دوسری آیتوں کے مطابق ہیں۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
اس حدیث پر جو ابن ابی حاتم کے حوالے سے ابھی بیان ہوئی ہے دوبارہ نظر ڈال جائیے «لَا يُؤْمِنُونَ» پہلے جملہ کی تاکید ہے یعنی ڈرانا نہ ڈرانا دونوں برابر ہیں، دونوں حالتوں میں ان کا کفر نہ ٹوٹے گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ «لَا يُؤْمِنُونَ» خبر ہو اس لیے کہ تقدیر کلام «إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ» [2-البقرة:6] ہے اور «سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ» جملہ معترضہ ہو جائے گا۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»