یہ سورت سب سے آخر رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اتری ہے۔ بخاری شریف میں ہے سب سے آخر میں آیت «يَسْتَفْتُونَكَ» [ 4-النساء: 176 ] اتری۔ اور سب سے آخری سورت سورۃ براۃ اتری ہے۔ [صحیح بخاری:4654]
اس کے شروع میں بسم اللہ نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے امیر المؤمنین سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی اقتداء کر کے اسے قرآن میں نہیں لکھی تھی۔ ترمذی شریف میں ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ ”آخر کیا وجہ ہے؟ جو آپ نے سورۃ الانفال کو جو مثانی میں سے ہے اور سورۃ براۃ کو جو مئین میں سے ہے ملا دیا اور ان کے درمیان «بِسمِ اللَّهِ الرَّحمٰنِ الرَّحيمِ» نہیں لکھی اور پہلے کی سات لمبی سورتوں میں انہیں رکھا؟“
تو آپ نے جواب دیا کہ ”بسا اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک ساتھ کئی سورتیں اترتی تھیں۔ جب آیت اترتی آپ وحی کے لکھنے والوں میں سے کسی کو بلا کر فرما دیتے کہ اس آیت کو فلاں سورت میں لکھ دو جس میں یہ ذکر ہے سورۃ الانفال مدینہ منورہ میں سب سے پہلے نازل ہوئی تھی اور سورۃ براۃ سب سے آخر میں اتری تھی۔“
بیانات دونوں کے ملتے جلتے تھے مجھے خیال ہوا کہ کہیں یہ بھی اسی میں سے نہ ہو حضور اکرم صلی اللہ علیہ کا انتقال ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے نہیں فرمایا کہ یہ اس میں سے ہے اس لیے میں نے دونوں سورتوں کو متصل لکھا اور ان کے درمیان «بِسمِ اللَّهِ الرَّحمٰنِ الرَّحيمِ» نہیں لکھی اور سات پہلی لمبی سورتوں میں انہیں رکھا۔ [سنن ابوداود:786،قال الشيخ الألباني:ضعیف]
اس سورت کا ابتدائی حصہ اس وقت اترا جب آپ غزوہ تبوک سے واپس آ رہے تھے۔ حج کا زمانہ تھا۔ مشرکین اپنی عادت کے مطابق حج میں آ کر بیت اللہ شریف کا طواف ننگے ہو کر کیا کرتے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں خلا ملا ہونا ناپسند فرما کر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو حج کا امام بنا کر اس سال مکہ مکرمہ روانہ فرمایا کہ مسلمانوں کو احکام حج سکھائیں اور مشرکوں میں اعلان کر دیں کہ وہ آئندہ سال سے حج کو نہ آئیں اور سورۃ براۃ کا بھی عام لوگوں میں اعلان کر دیں۔
آپ کے پیچھے پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا کہ آپ کا پیغام بحیثیت آپ کے نزدیکی قرابت داری کے آپ بھی پہنچا دیں، جیسے کہ اس کا تفصیلی بیان آ رہا ہے، ان شاءاللہ۔
پس فرمان ہے کہ یہ بے تعلقی ہے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بعض تو کہتے ہیں: " یہ اعلان اس عہد و پیمان کے متعلق ہے جن سے کوئی وقت معین نہ تھا یا جن سے عہد چار ماہ سے کم کا تھا لیکن جن کا لمبا عہد تھا وہ بدستور باقی رہا "۔
جیسے فرمان ہے کہ «فَأَتِمّوا إِلَيهِم عَهدَهُم إِلىٰ مُدَّتِهِم» [ 9- التوبہ: 4 ] ان کی مدت پوری ہونے تک تم ان سے ان کا عہد نبھاؤ۔ حدیث میں بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " ہم سے جن کا عہد و پیمان ہے ہم اس پر مقررہ وقت تک پابندی سے قائم ہیں۔ " [تفسیر ابن جریر الطبری:16384]
گو اس بارے میں اور اقوال بھی ہیں لیکن سب سے اچھا اور سب سے قوی قول یہی ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ " جن لوگوں سے عہد ہو چکا تھا ان کے لیے چار ماہ کی حد بندی اللہ تعالیٰ نے مقرر کی اور جن سے عہد نہ تھا ان کے لیے حرمت والے مہینوں کے گزر جانے کی عہد بندی مقرر کر دی یعنی دس ذی الحجہ سے محرم ختم تک پچاس دن "۔
اس مدت کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سے جنگ کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے جب تک وہ اسلام قبول نہ کر لیں۔ اور جن سے عہد ہے وہ دس ذی الحجہ کے اعلان کے دن سے لے کر بیس ربیع الآخر تک اپنی تیاری کر لیں پھر اگر چاہیں مقابلے پر آ جائیں۔
یہ واقعہ ٩ ھ کا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امیر حج مقرر کر کے بھیجا تھا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو تیس یا چالیس آیتیں قرآن کی اس صورت کی دے کر بھیجا کہ آپ چار ماہ کی مدت کا اعلان کر دیں۔
آپ نے ان کے ڈیروں میں، گھروں میں، منزلوں میں جا جا کر یہ آیتیں انہیں سنا دیں اور ساتھ ہی سرکار نبوت کا یہ حکم بھی سنا دیا کہ اس سال کے بعد حج کے لیے کوئی مشرک نہ آئے اور بیت اللہ کا طواف کوئی ننگا شخص نہ کرے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:16376] قبیلہ خزاعہ قبیلہ مدلج اور دوسرے سب قبائل کے لیے بھی یہی اعلان تھا۔
تبوک سے آ کر آپ نے حج کا ارادہ کیا تھا لیکن مشرکوں کا وہاں آنا اور ان کا ننگے ہو کر وہاں کا طواف کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ناپسند تھا اس لیے حج نہ کیا اور اس سال سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا انہوں نے ذی المجاز کے بازاروں میں اور ہر گلی کوچے اور ہر ہر پڑاؤ اور میدان میں اعلان کیا کہ " چار مہینے تک کی تو شرک اور مشرک کو مہلت ہے اس کے بعد ہماری اسلامی تلواریں اپنا جوہر دکھائے گی " بیس دن ذی الحجہ کے، محرم پورا، صفر پورا، اور ربیع الاول پورا اور دس دن ربیع الآخر کے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:16377]
زہری رحمہ اللہ کہتے ہیں: " شوال محرم تک کی ڈھیل تھی " لیکن یہ قول غریب ہے۔ اور سمجھ سے بھی بالا تر ہے کہ حکم پہنچنے سے پہلے ہی مدت شماری کیسے ہو سکتی ہے؟