اب اللہ نے تم سے (بوجھ) ہلکا کر دیا اور جان لیا کہ تم میں کچھ کمزوری ہے، پس اگر تم میں سے سو صبر کرنے والے ہوں تو دو سو پر غالب آئیں اور اگر تم میں سے ہزار ہوں تو اللہ کے حکم سے دو ہزار پر غالب آئیں اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔[66]
اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو جہاد کی رغبت دلا رہا ہے اور انہیں اطمینان دلارہا ہے کہ وہ انہیں دشمنوں پر غالب کرے گا چاہے وہ ساز و سامان اور افرادی قوت میں زیادہ ہوں، ٹڈی دل ہوں اور گو مسلمان بےسرو سامان اور مٹھی بھر ہوں۔
فرماتا ہے ” اللہ کافی ہے اور جتنے مسلمان تیرے ساتھ ہوں گے وہی کافی ہیں۔ پھر اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ مومنوں کو جہاد کی رغبت دلاتے رہو۔ “
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صف بندی کے وقت مقابلے کے وقت برابر فوجوں کا دل بڑھاتے بدر کے دن فرمایا: اٹھو اس جنت کو حاصل کرو جس کی چوڑائی آسمان و زمین کی ہے۔ عمیر بن حمام کہتے ہیں اتنی چوڑی؟ فرمایا: ہاں ہاں اتنی ہی۔ اس نے کہا واہ واہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کس ارادے سے کہا؟ کہا اس امید پر کہ اللہ مجھے بھی جنتی کر دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری پیشگوئی ہے کہ تو جنتی ہے۔ وہ اٹھتے ہیں دشمن کی طرف بڑھتے ہیں اپنی تلوار کامیان توڑ دیتے ہیں کچھ کھجوریں جو پاس ہیں کھانی شروع کرتے ہیں پھر فرماتے ہیں جتنی دیر میں انہیں کھاؤں اتنی دیر تک بھی اب یہاں ٹھہرنا مجھ پر شاق ہے انہیں ہاتھ سے پھینک دیتے ہیں اور حملہ کر کے شیر کی طرح دشمن کے بیچ میں گھس جاتے ہیں اور جوہر تلوار دکھاتے ہوئے کافروں کی گردنیں مارتے ہیں اور حملہ کرتے ہوئے شہید ہو جاتے ہیں رضی اللہ عنہ و رجاء۔ [صحیح مسلم:1901]
ابن المسیب اور سعد بن جیر رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں یہ آیت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام کے وقت اتری جب کہ مسلمانوں کی تعداد پوری چالیس کی ہوئی۔ لیکن اس میں ذرا نظر ہے اس لیے کہ یہ آیت مدنی ہے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام کا واقعہ مکہ شریف کا ہے۔ حبشہ کی ہجرت کے بعد اور مدینہ کی ہجرت سے پہلے کا۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
پھر اللہ تبارک و تعالیٰ مومنوں کو بشارت دیتا ہے اور حکم فرماتا ہے کہ ” تم میں سے بیس ان کافروں میں سے دو سو پر غالب آئیں گے۔ ایک سو ایک ہزار پر غالب رہیں گے غرض ایک مسلمان دس کافروں کے مقابلے کا ہے۔“ پھر حکم منسوخ ہو گیا لیکن بشارت باقی ہے جب یہ حکم مسلمانوں پر گراں گذرا۔ ایک دس کے مقابلے سے ذرا جھجکا تو اللہ تعالیٰ نے تخفیف کر دی اور فرمایا۔ اب اللہ نے بوجھ ہلکا کر دیا۔ لیکن جتنی تعداد کم ہوئی اتنا ہی صبر ناقص ہو گیا پہلے حکم تھا کہ ” بیس مسلمان دو سو کافروں سے پیچھے نہ ہٹیں “ اب یہ ہوا کہ ” اپنے سے دگنی تعداد یعنی سو دو سو سے نہ بھاگیں۔“
پس گرانی گزرنے پر ضعیفی اور ناتوانی کو قبول فرما کر اللہ نے تخفیف کر دی۔ پس دگنی تعداد کے کافروں سے تو لڑائی میں پیچھے ہٹنا لائق نہیں ہاں اس سے زیادتی کے وقت طرح دے جانا جرم نہیں۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں یہ آیت ہم صحابیوں رضی اللہ عنہم کے بارے میں اتری ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت پڑھ کر فرمایا: پہلا حکم اٹھ گیا۔ [مستدرک حاکم:239/2:ضعیف]